ترکی کا شام کو تقسیم کرنے کی کسی بھی کوشش کے خلاف براہ راست مداخلت کا اعلان

ترکی کی شام میں مداخلت کی وارننگ
انقرہ (ڈیلی پاکستان آن لائن) ترکی نے خبردار کیا ہے کہ وہ شام کو تقسیم کرنے کی کسی بھی کوشش کے خلاف براہ راست مداخلت کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ایشیا ءمیں سب سے زیادہ کینسر کی شرح ہے:این ایف ای ایچ کے تحت چھاتی کے سرطان پر آگاہی سیمینار
جنوبی شام میں جھڑپوں کا پس منظر
خبر ایجنسی روئٹرز کے مطابق ترک وزیر خارجہ حقان فدان نے منگل کے روز انقرہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی شام میں ہونے والی جھڑپوں کے بعد اگر کوئی گروہ خودمختاری حاصل کرنے کی کوشش کرے گا تو ترکی اسے روکے گا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی پاسپورٹ پر 32 ممالک کا ویزہ فری سفر ممکن، عالمی رینکنگ میں بہتری
اسرائیل پر تنقید
ان کا کہنا تھا کہ شام کی تقسیم کی کسی بھی کوشش کو ترکی روکنے کے لیے مداخلت کرے گا، اور اس تناظر میں اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ترکی کے مطابق اسرائیل شام میں عدم استحکام پیدا کر کے اسے تقسیم کرنا چاہتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: انڈس واٹر کمیشن نے معاہدے کی خلاف ورزیوں کی بھارتی تفصیل حکومت کو بھیج دی
اسرائیلی فضائی حملوں کی مذمت
ترکی نے گزشتہ ہفتے دمشق پر ہونے والے اسرائیلی فضائی حملوں کی مذمت کی ہے اور ان حملوں کو شام میں امن اور سلامتی کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ ترکی حکام کا ماننا ہے کہ جنوبی شام کے صوبہ سویدہ میں دروز جنگجوؤں اور بدو قبائل کے درمیان جھڑپیں بھی اسرائیلی پالیسی کا حصہ ہیں، جس کا مقصد پورے خطے کو غیر مستحکم کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پیپلز پارٹی، ن لیگ، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں سے اختلاف ہے دشمنی نہیں: فضل الرحمان
نیٹو رکن کی حیثیت سے ترکی کی حمایت
ترکی نیٹو کا رکن ملک ہونے کے باوجود شام کی نئی حکومت کی حمایت کرتا ہے اور اس نے دروز اور بدو گروہوں کے درمیان فوری جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مودی کے جنگی جنون کے خلاف بھارت کے اندر سے آوازیں اٹھنے لگیں، ارب پتی ہرش گوئینکا نے خبردار کردیا
آنے والے خطرات
ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ اسرائیل شام کو کمزور اور غیر مستحکم بنا کر خطے کے لیے بوجھ بنانا چاہتا ہے، جبکہ کرد ملیشیا YPG اس بدامنی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔
استحکام کے خطرات
انہوں نے کہا کہ شام میں موجود گروہوں کو موجودہ بدامنی کو خودمختاری یا آزادی حاصل کرنے کے لیے موقع نہیں سمجھنا چاہیے، ورنہ انہیں بڑی اسٹریٹیجک تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کے مطابق اس راستے کا کوئی اختتام نہیں۔