صوفی نذیر کھاریاں دفتر کا چوکیدار تھا، میری غیر موجودگی میں وہ بچوں کو سکول سے لاتا، بچے اُسے پیار سے ”صوفی پانڈا“ کہتے جس کا وہ بہت برا مناتا۔

کرکٹ کا شوق اور کھاریاں کیمپنگ گراؤنڈ
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 236
کرکٹ;
کھاریاں کیمپنگ گراؤنڈ (وہ جگہ جہاں فوج نے پڑاؤ کیا ہو کیمپنگ گراؤنڈ کہلاتی ہے) میں کھاریاں کے نوجوانوں کا کرکٹ کا شوق مجھے حد درجہ متاثر کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں میں نے دفتر کے سامنے بیکار پڑی کیمپنگ گراؤنڈ میں ان کے لیے سیمنٹ کی وکٹ بنوا دی۔ یہاں 6 دن نیٹ پریکٹس ہوتی اور سات میں ایک میچ ہوتا، جس میں پرجوش نوجوان کھلاڑی شرکت کرتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ میں پاکستان کی جانب سے پیش کردہ 4 قراردادیں منظور
ٹیم کا قیام اور ٹورنامنٹ
میرا دوست راجہ اسلم ایڈووکیٹ ایک اچھا کرکٹر تھا اور اس کے والد یہاں کے نامی وکیل تھے۔ چند ہفتوں میں ہی کرکٹ ٹیم تشکیل پا گئی اور میں نے ان کو کرکٹ کی مکمل کٹ سیالکوٹ سے منگوا کر دی۔ یوں میری تھوڑی سی دلچسپی نے ان نوجوانوں کو صحت مندانہ سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا۔
میں نے انکل نذیر سے مل کر ایک شاندار کرکٹ ٹورنامنٹ منعقد کیا جس میں کھاریاں شہر، کھاریاں کینٹ، جہلم، جہلم کینٹ اور لالہ موسیٰ سے کل 6 ٹیموں نے حصہ لیا۔ بھرپور میچز ہوئے اور یہ ٹورنامنٹ غالباً لالہ موسیٰ کی ٹیم نے جیتا تھا۔ کھاریاں کینٹ کی ٹیم کے کپتان بریگیڈیئر تھے (نام ذہن سے نکل گیا) جو آرمی پبلک سکول کے ایڈمنسٹراٹر بھی تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ایشین ایتھلیٹکس چیمپئن شپ: پاکستان کے ارشد ندیم نے گولڈ میڈل جیت لیا
بچوں کا داخلہ اور دوستی
اس ٹورنامنٹ سے پہلے میں نے اپنے بچوں عمر اور احمد کو آرمی پبلک سکول میں داخل کروانے کے لیے ان سے مل چکا تھا۔ بدقسمتی سے، ان کی ٹیم میری ٹیم سے کرکٹ میچ بری طرح ہار گئی، جس کی وجہ سے ان کی ٹیم کے فائنل میں کھیلنے کے امکانات ختم ہوگئے۔ میچ کے بعد بریگیڈیئر صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے؛ “گو آپ نے ادھر ادھر سے کھلاڑی پکڑ کر ہمیں بری طرح ہرایا ہے لیکن اس ہار کا آپ کے بچوں کے داخلہ پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔" وہ مسکرائے اور چلے گئے۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور دل ہی دل میں ان کے ظرف کی داد دیتا رہا۔ اگلے روز میرے دونوں بچوں کا داخلہ آرمی پبلک سکول میں ہوگیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سیہون: ڈکیتی مزاحمت پر ڈاکوؤں کی فائرنگ سے نوجوان جاں بحق
تعلیمی مزاج اور دوستیاں
اس دور میں میجر جنرل ضرار عظیم بھی کھاریاں میں ہی ڈیو کمانڈر تھے (بعد میں وہ لاہور کے کور کمانڈر بھی رہے) اور ان کے بچے عمر اور احمد کے کلاس فیلوز اور آپس میں اچھی دوستی تھی۔ لاہور آ کر ماسوائے ایک بار کے ان بچوں سے رابطہ نہ رہا۔ تعلیمی لحاظ سے کھاریاں بہتر جگہ تھی کیونکہ وہاں آرمی پبلک سکول کے علاوہ سٹی سکول، بیکن ہاؤس اور بلوم فیلڈ کی برنچز بھی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا باضابطہ طور پر ’’جوڈیشل کمیشن آف پاکستان‘‘ کا حصہ بننے کا فیصلہ
عمر اور احمد کی تعلیم
میرے بچے عمر اور احمد پڑھائی میں اچھے تھے۔ احمد عمر سے بہتر تھا۔ ذہین عمر بھی تھا لیکن وہ چیزوں کو آسان لیتا تھا۔ محنت کم کرتا اور حافظے پر زیادہ زور تھا۔ شروع میں عمر کا داخلہ سٹی پبلک سکول میں ہوا تھا جو صوفی نذیر کے جاننے والے (چوہدری عباس صاحب) کا تھا۔
صوفی نذیر کھاریاں دفتر کا چوکیدار تھا، نہایت سمجھدار، کچھ لڑاکا لیکن بھلے مانس آدمی تھا۔ وہ گھر کا فرد ہی تھا اور آج تک ایسا ہی ہے۔ میری بیگم سے ہر دوسرے دن اس کی ان بن ہو تی تھی اور شام کو وہ گھر بیٹھا چائے پی رہا ہوتا تھا۔ اپنے 5 چھوٹے بھائیوں کے ساتھ بھی وہ بہت مخلص تھا اور ان کو اسپین بجھوانے میں اس کا کلیدی کردار تھا، مگر بعد میں اس کے بھائی مثل برادر یوسف ہی نکلے۔
میرے بچے عمر اور احمد اس سے بہت مانوس تھے۔ میری غیر موجودگی میں وہی انہیں سکول سے لاتا تھا۔ گو ایسے مواقع کم ہی آئے۔ بچے اسے پیار سے “صوفی پانڈا” کہتے تھے جس کا وہ برا مناتا اور انہیں ڈانٹ دیتا تو وہ انہیں زیادہ شدت سے پانڈا کہتے۔ پھر مجھے شکایت لگاتا اور میری بھی ہنسی نکل آتی تھی۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب “بک ہوم” نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔