شیلا باغ اور کولپور بلوچستان کے چھوٹے اسٹیشن لیکن انتہائی خوبصورت ہیں، جب برف پڑتی ہے تو یہ پاکستان کے نہیں یورپ کے اسٹیشن لگتے ہیں

مصنف: محمد سعید جاوید

یہ بھی پڑھیں: بشریٰ بی بی کی بیٹیوں کا والدہ سے ملاقات کیلئے عدالت سے رجوع

کولپور: بلوچستان کا خوبصورت اسٹیشن

قسط: 196
وادیِ بولان میں میری جین کی اس سرنگ کو پار کرنے کے کچھ ہی دیر بعد نہ صرف بلوچستان، بلکہ پاکستان کے سب سے خوبصورت اسٹیشنوں میں سے ایک "کولپور" آتا ہے۔ یہ اس سبی کوئٹہ لائن کا آخری بڑا اسٹیشن ہے۔ یہاں کا موسم اور ماحول اتنا شاندار ہے کہ دور دور سے سیاح اسے دیکھنے آتے ہیں۔ شیلا باغ اور کولپور دونوں بلوچستان کے چھوٹے چھوٹے اسٹیشن ہیں لیکن دونوں خوبصورتی میں اپنی انتہاؤں کو پہنچے ہوئے ہیں۔ دونوں اسٹیشنوں پر جب برف پڑتی ہے تو یہ پاکستان کے نہیں، یورپ کے ہی کوئی اسٹیشن لگتے ہیں۔ کولپور کو محکمہ ریلوے نے بہت بہترین حالت میں رکھا ہوا ہے اور وہ مستقبل میں اسے ایک خوبصورت سیاحتی مقام بنانا چاہتی ہے، جہاں تفریح طبع کی ساری سہولتیں موجود ہوں گی۔ اب تو اس کے آس پاس کافی تعداد میں وسیع و عریض اور شاندار فیملی ریسٹورنٹ بھی کھل گئے ہیں جہاں کوئٹہ سے لوگ اپنے دوستوں اور اہل خانہ کے ہمراہ لطف اندوز ہونے کے لیے آتے ہیں۔ یہ چونکہ کوئٹہ والی مرکزی شاہراہ پر بنے ہوئے ہیں اس لیے سڑک کے راستے جانے والے مسافر بھی یہاں ٹھہر جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: راول ڈیم میں پانی کی سطح خطرے کے نشان کے قریب پہنچنے پر سپل وے کھول دیئے گئے

سمٹ ٹنل: سرنگ نمبر 17

کول پور سے نکلتے ہی درہ بولان کی آخری سرنگ آجاتی ہے- جس کا سرکاری نام سمٹ ٹنل ہے جو کسی پہاڑی کی آخری چوٹی کو کہتے ہیں۔ یہ بھی چونکہ اس سلسلے کی آخری پہاڑی ہے اور کافی بلندی پر ہے، اس لیے اس کو یہ نام دیا گیا تھا۔ اس کے بعد گاڑی قدرے میدانی علاقے اور چھوٹے بڑے پہاڑی سلسلے کے بیچ میں سے گزرتی ہے جہاں آس پاس کچھ گاؤں اور بستیاں بنی ہوئی ہیں۔ یہاں پہنچ کر ایک عجیب و غریب کام ہوتا ہے کہ گاڑیوں کی کھڑکیوں کے شٹر بند کر دئیے جاتے ہیں، اس لیے نہیں کہ وہاں سیکیورٹی کی کوئی تنصیبات ہیں، ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ ان بستیوں میں رہنے والے کچھ آوارہ بچے گاڑی پر سنگ باری کرتے ہیں، جس سے شیشے ٹوٹ کر لوگ زخمی ہو جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے اور محکمہ ریلوے یا مقامی پولیس ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ابھی تک کچھ نہیں کرسکی۔

کوئٹہ ریلوے جنکشن کی تاریخ

کچھ ہی دیر بعد گاڑی کوئٹہ شہر کے خوبصورت ریلوے جنکشن میں داخل ہو جاتی ہے جو 1887ء میں تعمیر ہوا تھا۔ جس لائن کو بچھانے کا آغاز 6 اکتوبر 1879ء کو روہڑی سے سبی اور پھر سبی سے کوئٹہ تک ہوا تھا وہ منصوبہ بالآخر 7 سال بعد یعنی اگست 1886ء میں مکمل ہو گیا۔ اس لائن کی تعمیر کے دوران اور بعد میں بھی اس لائن کو سخت امتحانوں سے گزارا گیا اور خالی ٹرالیوں اور انجنوں کو چلا کر تجربات کرنے کے بعد نئی نویلی علاقے کی اس مشکل ترین ریلوے لائن پر دوڑتی ہوئی پہلی مسافر گاڑی مارچ 1887ء میں خراماں خراماں کوئٹہ شہر میں داخل ہوئی۔ لوگ اس تھکی ماندی گاڑی اور دیو ہیکل بھاپ کے انجن کو دیکھ کر اتنا خوش ہوئے کہ اس پر واری واری گئے اور اس کی نظر اْتارنے کے لیے شہر کے سب باسی اسٹیشن پر پہنچ گئے اور خوب جی بھر کے جشن منایا گیا۔

(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...