یوتھ موومنٹ کے میرے گھر پر ۲ اجلاس ہوئے جن میں پرانے دوست شامل ہوئے، ماسوائے اقبال قرشی، شاہد محمود ندیم جو بوجوہ مصروفیات تشریف نہ لا سکے۔

مصنف کا تعارف
مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 108
یہ بھی پڑھیں: سندھ کے مجموعی بجٹ کا تخمینہ 37 کھرب سے زائد ہونے کا امکان، تجاویز سامنے آ گئیں
چیمبر کی تاریخ
مذکورہ چیمبر بنیادی طور پر معروف وکیل چودھری احسان الحق چودھری صاحب کا تھا جو میرے اس چیمبر کو جوائن کرنے سے ایک مہینہ پہلے چیئرمین پنجاب سروس ٹربیونل تعینات ہو گئے تھے۔ اس حیثیت سے بھی کبھی کبھار اْن کا اپنے پرانے چیمبر میں آنا ہوا اور ان سے ملاقات رہی۔ بعد ازاں، وہ ہائی کورٹ لاہور کے جج مقرر ہوئے اور اس حیثیت میں کئی سال کام کرنے کے بعد 62 سال کی عمر میں ریٹائر ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ میں چار بڑے ہاتھیوں کے وزن کے برابر تین لاکھ پاؤنڈ پنیر غائب ہو گئی
ریٹائرمنٹ کے بعد کی سرگرمیاں
احسان الحق چودھری صاحب نے ریٹائرمنٹ کے بعد شاہراہِ فاطمہ پر اپنا نیا چیمبر بنا لیا اور سپریم کورٹ کی پریکٹس کرتے رہے۔ ان کے پرانے چیمبر سے کئی وکیل سول جج بن کر جا چکے تھے جن میں مقبول محمود باجوہ اور شیخ احمد فاروق کے نام مجھے یاد ہیں۔ ان دونوں سول ججوں کا شمار بڑے لائق فائق اور دیانتدار ججوں میں ہوتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: زارا نور عباس کا انکشاف: جب معروف برانڈز نے میری پہلی حاملگی میں کام دینے سے انکار کیا
مقبول محمود باجوہ کی ملاقاتیں
سول جج مقبول محمود باجوہ مہینہ میں ایک دفعہ اپنے چیمبر میں ضرور تشریف لایا کرتے تھے اور ان سے کافی ملاقات رہی۔ وہ بعد میں جج لاہور ہائی کورٹ تعینات رہے۔ انہوں نے ایک دن ازخود میرے سینئر ایم اے حئی خاں سے بھی کہا کہ آپ رانا صاحب کو کچھ نہیں سکھا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ویڈیو: “گاؤں میں پہلی محبت کی شادی ہماری تھی” بوڑھے میاں بیوی کی کہانی سن کر آپ بھی کہیں گے سچی محبت اسے کہتے ہیں
پاکستان یوتھ موومنٹ کی تنظیم نو
اس طرح وکالت میں خود کو آگے نہ بڑھتے دیکھ کر مجھے پاکستان یوتھ موومنٹ کو نئے سرے سے منظم کرنے کی خواہش پیدا ہوئی اور اس ضمن میں میں نے یوتھ موومنٹ کے پرانے ساتھیوں سے رابطہ کیا۔ ان میں سید افتخار شبیر بھی شامل تھے جو ان دنوں بطور آڈیٹر جنرل پاکستان خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ریٹائرمنٹ کے بعد آتا ہوں تو ان شاء اللہ مل کر کام کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: نائجیریا : گاؤں پر مسلح افراد کے حملے میں 100 افراد ہلاک
احوالِ وفات
24 نومبر 1990ء کو اخبارات، ریڈیو، ٹی وی کے ذریعے یہ المناک خبر سُنی کہ آڈیٹر جنرل پاکستان فارن آڈٹ کے لئے نیویارک گئے ہوئے تھے جہاں ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ چند دنوں بعد ان کی میت لاہور موصول ہونے پر میں جنازہ میں بھی شامل ہوا اور چند دنوں بعد ان کے ایصال ثواب کے لئے میں نے اپنے چیمبر 9 بیگم روڈ لاہور میں قرآن خوانی کا اہتمام کیا، جس میں ان کے دونوں بیٹے خرم اور سروش بھی شامل ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری میں توسیع
وکالت اور یوتھ موومنٹ کی سرگرمیاں
صبح کے وقت میں باقاعدگی سے اپنے چیمبر اور عدالتوں میں اپنے سینئر کے ساتھ جاتا رہا اور شام کے اوقات میں وکالت پڑھنے کی بجائے میں نے ایک سال تک یوتھ موومنٹ کی تنظیم نو کے سلسلے میں متعدد اجلاسوں کے ساتھ ساتھ 2 بڑے سیمیناروں کا انعقاد بھی کیا۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش نے پاکستان کے خلاف ٹی 20 سیریز کا ابتدائی شیڈول ترتیب دیدیا
پرانی تنظیم کے احیاء کی کوششیں
1990ء کے دوران جب سینئر ایڈووکیٹ رانا سرور کے ساتھ کام کرتے ہوئے مجھے اپنے وکیل بننے کا احساس ہو چلا تھا تو مجھے اپنے پرانے ادارے پاکستان یوتھ موومنٹ کو نئے سرے سے منظم کرنے کا خیال آیا، جو تقریباً 20 سال بند ہو چکا تھا۔ اس ضمن میں میں نے یوتھ موومنٹ کے پْرانے ساتھیوں میں سے جو حیات تھے، ان سے رابطہ کرنے کی ٹھانی۔ ان میں ڈاکٹر منیرالدین چغتائی، پروفیسر شکیلہ رشید، حافظ فرحت علی، اور دیگر شامل تھے۔
یہ بھی پڑھیں: مرغی کی قیمت میں گراوٹ کا سلسلہ جاری، آج مزید سستی ہوگئی
اجلاس کا انعقاد
یوتھ موومنٹ کے میرے گھر پر 2 اجلاس ہوئے جن میں پرانے دوست بھی شامل ہوئے۔ ماسوائے اقبال قرشی، چودھری شاہ محمد، سید حسین احمد شیرازی، اور شاہد محمود ندیم جو بوجوہ مصروفیات کی وجہ سے تشریف نہ لا سکے۔
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔