چینی چینی کی پکار، مگر مچھوں نے جان بوجھ کر بحران پیدا کرایا، سوالوں کا جواب نہ ملا تو آئندہ انتخابات میں بڑے بریک تھرو ہوں گے

چینی کا بحران اور اس کے اسباب
لاہور (تجزیہ: جاوید اقبال) حالیہ دنوں میں ملک کے طول و عرض میں چینی کی پکار ہے۔ 2023 کے کرشنگ سیزن کی چینی ایکسپورٹ کر دی گئی تو 2024 کے کرشنگ سیزن کی چینی کہاں ہے؟ یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ایک ہی تیر سے دو نشانے لگائے جائیں گے یا ذخیرہ اندوزوں نے چینی ذخیرہ کر لی ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے نہ کوئی حکومتی نمائندہ تیار ہے اور نہ ہی پاکستان شوگر مل ایسوسی ایشن یا مل مالکان۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مگرمچھوں نے جان بوجھ کر ملک میں چینی کا بحران پیدا کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کے پی کے میں آندھی، طوفان اور بارش سے 8 افراد جاں بحق، لاہور میں دو زخمی
چینی کی ایکسپورٹ اور قیمتوں کی صورتحال
ملک کی ضرورت سے زائد چینی ہونے کے دعوے کر کے، اپنی چینی کے منہ مانگے ڈالر کمانے کے لیے، چینی کی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت حاصل کی گئی۔ اس سے نہ صرف اربوں روپے کمائے گئے بلکہ مزید بھی کمانے کے لیے مگرمچھ تیار بیٹھے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نہری مسئلہ: صدر زرداری کی منظوری کا بولنے والے کیا وہاں سلیمانی ٹوپی پہن کر بیٹھے تھے؟ مراد علی شاہ
ذخیرہ اندوزی کا انکشاف
چینی کے اس بحران میں ذخیرہ اندوزی کرنے والے بڑے مگرمچھ بے نقاب ہو سکتے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ ان کی کہانی سمجھانے کے لیے اس کی تفصیلات پیش کی جا رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: روس کا یوکرین کے سیکڑوں ڈرونز گرانے کا دعویٰ
عمران خان کی حکومت کے بعد کی صورتحال
عمران خان کی حکومت کے خاتمے پر جب شہباز شریف اور آصف علی زرداری کی حکومت وجود میں آئی، تو شوگر کے بڑے مل اونرز اور ایسوسی ایشن نے موجودہ نائب وزیراعظم کے ذریعے وزیراعظم سے ملاقات کی۔ انہوں نے وزیراعظم کو خطوط بھی لکھے کہ ملک کے اندر چینی کے بڑے ذخائر موجود ہیں اور اگر انہیں چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی جائے تو وہ گارنٹی دیتے ہیں کہ چینی 100 روپے کلو سے اوپر نہیں جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: رات کے آخری پہر “وسل” بجنے کی بڑی دیر تک آواز آتی رہی،نیند نے اٹھنے نہ دیا، جسموں سے جان ہی نکل گئی تھی یہ حماقت جان لیوا بھی ہو سکتی تھی
وفاقی کابینہ کی منظوری
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے انکار کر دیا مگر شوگر مافیا نے اپنی مہم جاری رکھی اور آخر کار 11 اکتوبر 2024 کو وفاقی کابینہ سے 5 لاکھ میٹرک ٹن چینی ایکسپورٹ کرنے کی منظوری لے لی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے بعد 12 اکتوبر کو نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں میں موسلا دھار بارش سے موسم خوشگوار
نئے سیزن کی چینی کا سوال
یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ 2024 کا کرشنگ سیزن شروع ہونے کے بعد نئی چینی کہاں گئی؟ کیا نئی چینی بھی ایکسپورٹ کر دی گئی یا بزرگ مگرمچھوں نے چینی اپنے گوداموں میں محفوظ رکھی ہے؟ حکومتی اہلکار اس بارے میں جواب دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
عوام کے سوالات
اب چونکہ ملک میں چینی کا بدترین بحران پیدا ہو چکا ہے، عوام کے بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹورز پر چینی مہنگی فروخت ہو رہی ہے۔ ارباب اقتدار سے سوال ہے کہ کیا شوگر ملز ایسوسی ایشن کی دی گئی انڈرٹیکنگ کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی؟ ان سوالات کے جوابات عوام کو دیے جانے کی ضرورت ہے، ورنہ آئندہ انتخابات میں عوام بڑے بریک تھرو اور اپ سیٹس کر سکتی ہے۔