کوئٹہ تعلیم کے میدان میں بہت آگے ہے، خواتین کیلئے یونیورسٹی اور میڈیکل کالج بھی ہے،یہاں گزرا ایک ایک دن خوبصورت لمحات کی یاد دلاتا ہے

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 200
یہ بھی پڑھیں: معروف موسیقار طافو خان طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے
کوئٹہ کی تعلیمی میدان میں ترقی
کوئٹہ تعلیم کے میدان میں بھی بہت آگے ہے، یہاں بلوچستان یونیورسٹی، ایگریکلچر یونیورسٹی، انجنیئرنگ اور مینیجمنٹ یونیورسٹیوں کے علاوہ خواتین کیلئے بھی ایک یونیورسٹی اور بولان میڈیکل کالج وغیرہ بھی ہیں۔ مجھے پہلی دفعہ 1995ء میں کوئٹہ شہر اور اس کے نواحی علاقے دیکھنے کا موقع ملا تھا، یہاں پر گزرا ہوا ایک ایک دن خوبصورت لمحات کی یاد دلاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایک چارج میں 430 کلومیٹر چلنے والی گاڑی پاکستان میں متعارف کروا دی گئی، حیرت انگیز فیچرز
باب 9: مرکزی لائن ایم ایل-3 (حصہ دوم)
کوئٹہ تا چمن
جب روہڑی تا چمن ریلوے لائن کے ابتدائی 2 مراحل یعنی روہڑی سے سبی اور سبی سے کوئٹہ تک مکمل ہو گئے تو اس کے تیسرے حصے کو بھی شروع کرنے کے بارے میں سوچا گیا۔ پہلے اس لائن کو چمن سے ہوتے ہوئے قندھار تک لے جانے کا منصوبہ تھا، لیکن فی الوقت اسے چمن تک ہی لیجانے کا حکم ملا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پارٹی کو تجویز دی ہے کہ حکومت میں شامل ہوں یا الگ ہوکر عوام میں جائیں ، یوسف رضا گیلانی
دفاعی ضروریات
یہ منصوبہ دفاعی ضروریات کے تحت بھی بے حد ضروری تھا کیونکہ افغانستان کی طرف سے روسی فوجوں یا افغانیوں کے حملے کے خدشات موجود تھے۔ اس لائن کو چمن تک لیجانے کے دو تین فوائد تھے۔ ایک تو یہ کہ افغانستان کی طرف سے کسی بھی قسم کی فوجی مداخلت یا حملے کے خطرے سے نبٹنے کیلئے فوری طور پر اس ریلوے لائن کے ذریعے سامان حرب اور فوج کو افغانستان کی سرحد بلکہ اس کے اندر قندھار تک پہنچایا جا سکے جو اس وقت ہندوستانی حکومت کی عملداری میں ہی آجاتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک سرد جنگ کی ذہنیت ترک کردیں، چین اور روس کا مشترکہ بیان
علاقے کی عسکری اہمیت
دوسرا یہ علاقہ، جس میں زیادہ تر پٹھان قبائل آباد تھے، اپنی عسکری کارروائیوں کے ذریعے کسی بھی وقت انگریز حکومت کیلئے درد سر بن سکتا تھا، اس لیے ضروری تھا کہ ریل کی پٹری کے ساتھ ساتھ مضبوط فوجی قلعے اور چھاؤنیاں بنا کر ان علاقوں پر اپنا تسلط قائم کرکے یہاں رہنے والے قبائلی سرداروں کو حکومتی طاقت کا احساس دلایا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: چوہدری شافیع حسین کا سندس فاؤنڈیشن کا دورہ، دستیاب سہولیات کا جائزہ لیا
سفر کی سہولت
یہ بھی شاید ان کے ذہن کے کسی گوشے میں تھا کہ یہ علاقہ بہت دشوار گزار اور غیر آباد تھا اور یہاں کے عوام کیلئے کسی بھی سمت سفر کرنا آسان نہ تھا، وہ لوگ پیدل یا اونٹوں اور گھوڑوں پر یہ سفر کیا کرتے تھے۔ اس علاقے میں پھلوں کے بہت بڑے باغات تھے جہاں سے انہیں باہر ہندوستان کی منڈیوں میں بھیجنے کیلئے قدرے تیز رفتار سواری کی ضرورت تھی جو اس ریل گاڑی کی شکل میں ان کو فراہم کی جا رہی تھی۔ تاخیر کی صورت میں اکثر یہ پھل اور سبزیاں تلف ہو جاتی تھیں۔ ان علاقوں میں کان کنی بھی ہوتی تھی اور معدنیات کو منڈیوں یا کارخانوں تک پہنچانا بھی کچھ اتنا آسان نہ تھا۔
یہ بھی پڑھیں: عمر ایوب تھانہ نیو ٹاؤن مقدمہ میں شامل تفتیش، تحریری بیان جمع
تاریخی پس منظر
روہڑی سے کوئٹہ جانے والی ریلوے لائن مارچ 1887ء میں مکمل ہو گئی تو حکام نے فوراً ہی کوئٹہ سے چمن ریلوے لائن پر کام کے آغاز کا حکم دے دیا۔ کوئٹہ سے چمن جانے والی مجوزہ ریلوے لائن کا فاصلہ 130 کلومیٹر بنتا تھا اور دشوار گزار علاقہ ہونے کے سبب یہ اندازہ لگایا گیا کہ منظور شدہ رفتار سے گاڑی کے ذریعے یہ سفر کوئی پانچ گھنٹے میں طے ہو جایا کرے گا.
(جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔