نوجوان کارکنوں کی تلاش میں کالجوں کا رخ کیا،خاص ردِعمل نہ آنے پر محسوس کیا کہ نوجوانوں میں سماجی کام کا جذبہ مفقود ہو کر رہ گیا ہے۔

مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 109
نوجوان کارکنوں کی تلاش میں میں نے کالجوں کا بھی رخ کیا۔ گورنمنٹ سائنس کالج وحدت روڈ کے پرنسپل سے مل کر اْن کی انٹرمیڈیٹ کی ایک کلاس سے بھی خطاب کیا۔ اس خطاب میں میں نے طالب علموں کو یوتھ ورک کیا ہوتا ہے اور نوجوان کس طرح سے ملک کی تعمیر نو میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں سمجھانے کی کوشش کی۔
طلباء کے سوالات اور جوابات
طلباء کے اس سوال پر کہ اْنہیں اپنے فارغ اوقات میں یوتھ ورک کرتے ہوئے کیا ملے گا؟ اس کے جواب میں اْنہیں یہ ذہن نشین کروانے کی کوشش کی کہ یوتھ ورک ایک رضاکارانہ سرگرمی ہے جسے کرتے ہوئے مالی فائدہ تو قطعی نہیں ہو گا لیکن اگر وہ اپنے محلے علاقہ میں دس نوجوانوں کی بھی ٹیم بنا لیں گے تو وہ اْن کے لئے کوئی اِن ڈور آؤٹ ڈور کھیلوں کا نظام بنا سکتے ہیں۔
نوجوانوں کے لئے مواقع
کسی دوست سے مستعار لئے گئے کمرے میں ریڈنگ روم لائبریری کی شکل دی جا سکتی ہے، غریب بچوں کو پارٹ ٹائم پڑھانے کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔ گروپ کی شکل میں اپنی سیر و سیاحت کا پروگرام گرمیوں کی چھٹیوں میں بنایا جا سکتا ہے۔ اس طرح ان بہت سارے کاموں میں سے ایک دو کام کرتے ہوئے بھی نوجوانوں میں ٹیم ورک سپرٹ پیدا ہوتی ہے۔
سماجی کام اور نوجوانوں کی تربیت
مل جل کر کام کرنا، کام لینا دینا سیکھتے ہیں۔ نوجوان اس طرح سماجی کام کرتے ہوئے معاشرتی مسائل کا شعور حاصل کرتے ہیں اور مسائل کا حل تلاش کرنے کا فن سیکھ سکتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے نوجوانوں کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوتا ہے اور اْن کے اندر لیڈر شپ کی صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں۔
یوتھ ورک میں حوصلہ کی کمی
نوجوان طلباء کی طرف سے کوئی خاص ردِعمل نہ آنے کی بناء پر میں نے محسوس کیا کہ نوجوانوں میں سماجی کام کرنے اور آگے بڑھنے کا جذبہ مفقود ہو کر رہ گیا ہے۔ 16تا 20 سال کے یہ نوجوان بڑوں کی سرپرستی اور مستقل رہنمائی میں ہی کوئی مثبت کام کرنے کا حوصلہ پا سکتے ہیں۔
اقبال احمد قرشی کے ساتھ ملاقات
قرشی انڈسٹریز کے اقبال احمد قرشی اور چودھری شاہ محمد سے میں الگ الگ جا کر ملا اور اقبال قرشی کی خواہش پر چودھری شاہ محمد کے ہمراہ جا کر بھی اْن سے ملاقات کی۔ اقبال احمد قرشی کا ہم دونوں کو کہنا تھا کہ اگر ہم دونوں مل کر کام کر سکتے ہیں تو وہ سرپرستی کے لئے حاضر ہیں۔
کتاب کی تصنیف کی درخواست
چودھری شاہ محمد سے اپنی علیٰحدہ ملاقات میں ان سے گزارش کی کہ میں یوتھ موومنٹ کے بارے میں ایک کتاب تصنیف کرنا چاہتا ہوں لہٰذا چودھر شاہ محمد یوتھ موومنٹ کا ریکارڈ عاریتاً ایک سال کے لئے میرے حوالے کر دیں تو مجھے امید ہے میں ”نوجوانوں کی کردار سازی میں پاکستان یوتھ موومنٹ کا کردار“ کے موضوع اور خدمات پر ایک کتاب ترتیب دے سکوں گا۔ کتاب مکمل کرنے کے بعد تمام ریکارڈ انہیں واپس کر دوں گا۔
ریکارڈ کی عدم دستیابی
لیکن چودھری صاحب نے مجھے یہ سہولت دینے سے صاف انکار کر دیا۔ چودھری شاہ محمد اب اس دنیا میں نہیں ہیں یوتھ موومنٹ کا تمام ریکارڈ یقیناً ضائع ہو گیا ہو گا۔ پاکستان یوتھ موومنٹ 1960-70ء کے عشرے کی پاکستان کی سب سے بڑی اور مؤثر تنظیم تھی اگر مجھے چودھری شاہ محمد سے ریکارڈ میسر ہو جاتاتو یقیناً اس موضوع پر علیٰحدہ سے ایک کتاب مرتب ہو سکتی تھی۔
نقصان اور یادداشت
راقم الحروف نے یوتھ موومنٹ کے کام اور کردار کے بارے میں جو کچھ لکھا وہ بہت کم اور مختصر ہے۔ اپنی یادداشت پر زور دے کر تحریر کیا ہے۔ ریکارڈ کی عدم موجودگی کے باعث میں پورے کام کا احاطہ نہیں کر سکا ہوں۔
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔