نظریہ زور پکڑ رہا ہے کہ صدر آصف زرداری اور شہباز شریف اعزاز نہیں، بلکہ بوجھ ہیں، فی الحال اس نظریے کی جیت ہوئی جو سولین سیٹ اپ کو ریاست کے لیے بہترین سمجھتے ہیں: سہیل وڑائچ

سہیل وڑائچ کا انکشاف
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے اپنے کالم میں دبے لفظوں میں بڑا انکشاف کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک نظریہ زور پکڑ رہا ہے کہ صدر آصف زرداری اور شہباز حکومت ریاست کے لیے اعزاز نہیں بلکہ بوجھ ہیں۔ کئی طاقتور لوگ سویلین حکومت کے خلاف نظریہ رکھتے ہیں، مگر ان کے پاس فیصلہ کن پوزیشن نہیں ہے۔ فیصلہ کن طاقتور بھی سویلین حکومت سے زیادہ خوش نہیں ہیں، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ سویلین سیٹ اپ کو چلانا ریاست کے لیے بہترین راستہ ہے۔ اس نظریے کی عارضی جیت ہو چکی ہے جو نظام کو چلانے کی حمایت کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اگر ملزم کسی دوسرے مقدمے میں شناخت ہو جاتا ہے تو عدالت گرفتاری کیسے روک سکتی ہے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے کیس میں ریمارکس
نظریات کی جنگ
سہیل وڑائچ نے اپنے کالم میں مزید کہا کہ تضادستان میں نظریات کی یہ جنگ تاریخ میں جاری رہی ہے، مگر کئی تجربات کے بعد یہ ایک بار پھر تصادم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ ایک نظریہ یہ کہتا ہے کہ سویلین ادارے، سیاستدان اور بیوروکریسی پاکستان کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ جبکہ متضاد نظریہ یہ سمجھتا ہے کہ سب مل جُل کر چلائیں گے تو ہی پاکستان آگے بڑھ سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: علیمہ خان نے بشریٰ بی بی کے احتجاج میں شرکت سے متعلق سوال پر حیران کن جواب دیا
شخصی لڑائی کا انداز
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ بظاہر نظریات کی لڑائی ہوتی ہے، مگر ہر دور میں یہ نظریاتی لڑائی شخصی لڑائی میں تبدیل ہوتی رہی ہے۔ اس وقت بھی یہ لڑائی کسی نہ کسی شکل میں شخصی ہو جائے گی۔ تضادستان کی اندرونی لڑائی جو آج کے دور کی جنگوں کی ماں کہلائے گی، اس میں یہ نظریہ طاقت پکڑ رہا ہے کہ صدر مملکت آصف زرداری اور شہباز حکومت ریاست کے لیے بوجھ ہیں۔ اس نظریے کے حامیوں کے پاس ان کی غلطیوں، کوتاہیوں اور ناکامیوں کی باقاعدہ چارج شیٹ موجود ہے۔
مستقبل کی امیدیں
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ حالانکہ کئی طاقتور لوگ سویلین حکومت کے خلاف نظریہ رکھتے ہیں، ان کو فیصلہ کن پوزیشن حاصل نہیں ہے۔ فیصلہ کن طاقتور بھی سویلین صدر اور کابینہ سے زیادہ خوش نہیں ہیں، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ سویلین سیٹ اپ کو چلانا اور اجتماعی فیصلے کرنا ہی ریاست کے لیے بہترین راستہ ہے۔ حالانکہ صدر کو سائیڈ لائن کرنے اور سویلین حکومت پر تنقید کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے، مگر اس وقت عارضی طور پر اس نظریے کی جیت ہوئی ہے جو نظام کو چلانے کا حامی ہے۔