پاکستان تحریک انصاف آج کی سیاست میں فی الحال کوئی کمال نہیں دکھا پا رہی، سزاؤں اور نا اہلیوں کا سیلاب بتا رہا ہے کہ سب اچھا نہیں: حامد میر

تحریک انصاف کی موجودہ صورتحال
اسلام آباد (ویب ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف فی الحال سیاسی میدان میں کوئی خاص کامیابی نہیں دکھا پا رہی ہے۔ پارٹی کے بانی چیئر مین عمران خان دو سال سے جیل میں ہیں اور ان کی ثابت قدمی نے مخالفین کو بھی داد دینے پر مجبور کر دیا ہے۔ مگر اس کے باوجود، عمران خان کی رہائی کیلئے تحریک انصاف کی جانب سے کوئی مؤثر تحریک چلانے میں ناکامی کا سامنا ہے، جس کا ذکر حامد میر نے اپنے کالم میں کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزارت سائنس و ٹیکنالوجی میں کمرشلائزیشن سیل کیوں قائم کیا گیا؟ وجہ سامنے آ گئی
عمران خان کی رہائی کیلئے تحریک کا اعلان
حامد میر کے مطابق، چند دن پہلے تحریک انصاف نے عمران خان کی رہائی کے لیے ایک نئی تحریک کا اعلان کیا، جس کا کلا ئمکس 5 اگست کو ہوگا۔ یہ تاریخ خاص ہے کیونکہ 5 اگست 2019 کو عمران خان وزیر اعظم تھے جب بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو معطل کیا۔ اس واقعے کے بعد، عمران خان نے اس معاملے پر احتجاج کرنے کا سلسلہ شروع کیا، جو بعد میں ختم ہو گیا۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں بارش، طوفان بادوباراں اور آندھی کا امکان
تحریک انصاف کی نئی حکمت عملی
اب جب تحریک انصاف کے رہنما پانچ اگست کو جلسوں کا اعلان کر رہے ہیں، تو خدشہ ہے کہ یہ احتجاج بھی پہلے کی طرح سرد نہ ہو جائے۔ عمران خان جیل میں بیٹھ کر اپنی جماعت کو متحرک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس بار تحریک چلانے کی ذمہ داری محمود خان اچکزئی کو سونپی گئی ہے جو دیگر جماعتوں کو ایک جگہ لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی میں ایک نہیں بہت دھڑے ہیں، جنید اکبر کا اعتراف
خیبر پختونخواہ میں احتجاج کی منصوبہ بندی
کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف نے اپنے احتجاج کی حکمت عملی تبدیل کی ہے اور وہ اس بار خیبر پختونخواہ میں مظاہرے کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جہاں عوام کا غم و غصہ عروج پر ہے۔ تحریک انصاف کے 5 اگست کے دعوے کے ساتھ ہی، قانونی مسائل کا سامنا کرنے والے اپنے اراکین پارلیمنٹ کو سزاؤں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حنا پرویز بٹ نے اداکارہ نرگس کو قانونی مدد فراہم کرنے کی یقین دہانی کرا دی
عوامی بے چینی اور سیاسی خوف
سوال یہ ہے کہ اگر تحریک انصاف واقعی کمزور ہوگئی ہے تو اس طرح کی سزاوں کا سلسلہ کیوں شروع ہوا؟ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ دراصل کسی نہ کسی کو معلوم ہے کہ کیسے تحریک انصاف کے رہنماؤں میں پھوٹ ڈال کر اور انہیں خائف کر کے قابو کیا جا سکتا ہے۔ عوامی بے چینی بڑھنے سے خطرہ پیدا ہو سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ قیادت کو خوفزدہ کرنا ضروری سمجھا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: میکے کو تشدد کی اطلاع دینے پر شوہر کے ہاتھوں بیوی قتل
قانونی چیلنجز اور ججز کی اہمیت
بیرسٹر گوہر خان کو خدشہ ہے کہ ان کے اراکین پارلیمنٹ نا اہل ہو جائیں گے اور انہوں نے چیف جسٹس سے ملاقات کی ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن کی کارروائیاں روکنے کی کوئی امید نہیں، جس کی وجہ سے سیاسی رہنماؤں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔
خوف کی حکومت اور عوامی طاقت
جب بڑی عہدوں پر بیٹھے لوگوں کے فیصلہ سازی کے پیچھے خوف کا سایہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ حالات اچھے نہیں ہیں۔ عوامی طاقت کا خوف برقرار ہے اور ہمیں دعا کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ ہمیں ان خوفناک حالات سے نجات دلائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خوف کی حکومت دیر پا نہیں ہوتی۔