خاتون بڑے جج کے دفتر شکایت کے لیے پہنچی تو اونچی اونچی بولنے لگی: “اہی سی اہی سی جیٹرا رات میرے پیچھے گھر تکر آ یا سی” شور بڑھا تو ہم دفتر سے باہر آ گئے۔
مصنف
شہزاد احمد حمید
یہ بھی پڑھیں: محنت کش ہمارے ہیرو، خراج تحسین پیش کرتے ہیں: سی ای او لیسکو کا یوم مئی پر تقریب سے خطاب
قسط
246
یہ بھی پڑھیں: کوئی پاکستانی طیارہ نہیں گرا…فیک نیوز واچ ڈاگ نے بھارت کا طیارہ گرانے کا دعویٰ سیاسی بیان قرار دیدیا
پہچان
چوہدری محمد ریاض (یہ چیالیانوالہ گجرات کے رہنے والے بڑے نامی اور ایماندار جج تھے۔) ڈسٹرکٹ سیشن جج گوجرانوالہ تھے۔ بھائی جان بوبی کے بہت اچھے دوست تھے اور کھاریاں میں میرے جاننے والے وسیم احمد (بینک کھاریاں کے منیجر) کے بہنوئی۔
یہ بھی پڑھیں: نیپال میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران جیلوں سے 13 ہزار 500 سے زائد قیدی فرار
الیکشن کی تیاری
انہیں الیکشن کے لئے ایک افسر کی ضرورت تھی جو الیکشن معمولات جانتا ہو۔ انہیں میرے اور بھائی جان بوبی کے رشتہ کا علم ہوا تو انہوں نے میری ڈیوٹی اپنے ساتھ بھی لگا لی۔ ان کا اسسٹنٹ گہرے سانولے رنگ کا محمد شہباز نامی سول جج تھا۔ میری ڈیوٹی سیشن جج صاحب کے ساتھ لگی تو شہباز نے خواہ مخواہ میرے ساتھ گاڑی چھنتی شروع کر دی۔ الیکشن کے ہر مرحلے پر سیشن جج صاحب کے عملے کو گائیڈ کرنے کی ذمہ داری اب میری تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ہم بھارت کے خلاف متحد ہیں، بھارتی جارحیت کے بعد عمران خان کا پہلا بیان سامنے آگیا
شہباز کی شکایت
ایک روز جج شہباز کسی خاتون ٹیچر کا پیچھا کرتے اس کے گھر تک پہنچ گیا۔ اگلے روز وہ بڑے جج کے دفتر شکایت کے لئے پہنچی تو اسے جج شہباز دکھائی دیا تو وہ اونچی اونچی بولنے لگی؛ "اہی سی۔۔۔ اہی سی۔۔۔ جیٹرا رات میرے پیچھے گھر تک آیا سی۔" شور بڑھا تو ڈسٹرکٹ جج اور ہم سب دفتر سے باہر آ گئے۔
یہ بھی پڑھیں: سائٹ صنعتی ایریا کے صنعتکاروں نے کراچی چیمبر کی ہڑتال کی حمایت کردی۔
جج کا کردار
چوہدری ریاض نے اس خاتون سے پوچھا؛ "بی بی! کیا بات ہے کیوں شور مچا رکھا ہے۔" اس نے ساری بات انہیں سنائی۔ وہ بولے؛ "میں اس کا بندوبست کرتا ہوں۔" دفتر آ کر اُسے بلایا، سر زنش کی اور مجھے کہنے لگے؛ "میرے حلقہ انتخاب کے تمام لیڈیز پولنگ سٹاف کی ڈیوٹی آپ لگاؤ گے۔" شہباز کو کہا؛ "سن لیا، مجھے کوئی شکایت نہ آئے۔" وہ بول تو کچھ نہیں سکتا تھا لیکن اس حکم کا اسے بڑا رنج تھا۔ خیر، حکم کی تعمیل میں وہ خاموش تو ہوا مگر جب بھی موقع ملتا تھوڑی بہت مداخلت کر لیتا۔
یہ بھی پڑھیں: مریم نواز کا بیان: تحریک انصاف کے لوگ کسی رعایت یا نرمی کے مستحق نہیں!
محبت کا آغاز
گوجرانوالہ میں الیکشن سٹاف کی ڈیوٹی کا کام آخری مراحل میں تھا کہ میں اور ریاض چائے پی کر واپس دفتر جا رہے تھے۔ راستے میں 2 خواتین ملیں جو سکول ٹیچر تھیں۔ تعارف ہوا یہ "حدیث خلجی" اور "رضیہ بٹ" تھیں۔ دونوں ہی مجسمہ حسن۔ الیکشن ڈیوٹی وہ اپنی مرضی کے سٹیشن پر کرنا چاہتی تھیں۔ ہم نے وعدہ کر لیا۔
یہ بھی پڑھیں: کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے، اوورسیز پاکستانی کے ساتھ ہوٹل مالک کا کروڑوں کا فراڈ، مری پولیس نے دبنگ اعلان کردیا
ریاض کی محبت
عین آخری وقت میں ان کے مرضی کے سٹیشن پر ڈیوٹی لگا دی۔ ان چند دنوں میں ہی ریاض رضیہ سے عشق کر بیٹھا۔ پہلی نظر کی محبت۔ بعد میں ریاض نے اپنی محبت سے پہلی بیوی کے ہوتے شادی کر لی لیکن خاندانی دباؤ میں آ کر اسے کچھ عرصہ بعد یہ رشتہ ختم کرنا پڑا تھا۔ حدیث خلجی مجھے اچھی لگی تھی۔ کچھ دوستی بھی رہی لیکن پھر یہ بھی ہواؤں میں کھو گئی اور میں گوجرانوالہ چھوڑ آیا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی صدر ورلڈ بینک سے ملاقات، ترقیاتی شراکت داری پر تبادلہ خیال
الیکشن کا اختتام
اس زمانے میں الیکشن ڈیوٹی کے لئے پرزئیڈنگ افسر کو پانچ صد روپے، اسسٹنٹ پرزئیڈنگ افسر کو تین صد روپے جبکہ پولنگ افسر کو اڑھائی سو روپے ملتے تھے۔ اتنی قلیل رقم کے لئے سکولوں کے اساتذہ خاص طور پر خواتین اپنی مرضی کے سٹیشن پر ڈیوٹی کے لئے کوئی بھی قیمت دینے کو تیار رہتی تھیں۔ خیر یہ الیکشن خیریت سے گزر گیا۔ اب چند رپورٹس الیکشن کمیشن کو بھجوانے کے علاوہ کوئی کام نہ تھا، مگر یہ ذمہ داری تو جج صاحبان کی تھی لیکن رپورٹس ہم ہی تیار کرتے تھے۔ اب فراغت تھی۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








