خاتون بڑے جج کے دفتر شکایت کے لیے پہنچی تو اونچی اونچی بولنے لگی: “اہی سی اہی سی جیٹرا رات میرے پیچھے گھر تکر آ یا سی” شور بڑھا تو ہم دفتر سے باہر آ گئے۔

مصنف
شہزاد احمد حمید
یہ بھی پڑھیں: وزیرداخلہ سے امریکہ کی قائم مقام سفیر نیٹلی بیکر کی 48 گھنٹے میں دوسری اہم ملاقات، پاک وطن کی سلامتی پر ہر گز آنچ نہیں آنے دیں گے:محسن نقوی
قسط
246
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کی اڈیالہ جیل سے منتقلی کی افواہوں پر جیل ذرائع کی وضاحت آگئی
پہچان
چوہدری محمد ریاض (یہ چیالیانوالہ گجرات کے رہنے والے بڑے نامی اور ایماندار جج تھے۔) ڈسٹرکٹ سیشن جج گوجرانوالہ تھے۔ بھائی جان بوبی کے بہت اچھے دوست تھے اور کھاریاں میں میرے جاننے والے وسیم احمد (بینک کھاریاں کے منیجر) کے بہنوئی۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب بھر میں ہیٹ ویو کا خدشہ، یکم جون سے موسم گرما کی تعطیلات کا امکان
الیکشن کی تیاری
انہیں الیکشن کے لئے ایک افسر کی ضرورت تھی جو الیکشن معمولات جانتا ہو۔ انہیں میرے اور بھائی جان بوبی کے رشتہ کا علم ہوا تو انہوں نے میری ڈیوٹی اپنے ساتھ بھی لگا لی۔ ان کا اسسٹنٹ گہرے سانولے رنگ کا محمد شہباز نامی سول جج تھا۔ میری ڈیوٹی سیشن جج صاحب کے ساتھ لگی تو شہباز نے خواہ مخواہ میرے ساتھ گاڑی چھنتی شروع کر دی۔ الیکشن کے ہر مرحلے پر سیشن جج صاحب کے عملے کو گائیڈ کرنے کی ذمہ داری اب میری تھی۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کا یمن میں سینیئر حوثی رہنماؤں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ
شہباز کی شکایت
ایک روز جج شہباز کسی خاتون ٹیچر کا پیچھا کرتے اس کے گھر تک پہنچ گیا۔ اگلے روز وہ بڑے جج کے دفتر شکایت کے لئے پہنچی تو اسے جج شہباز دکھائی دیا تو وہ اونچی اونچی بولنے لگی؛ "اہی سی۔۔۔ اہی سی۔۔۔ جیٹرا رات میرے پیچھے گھر تک آیا سی۔" شور بڑھا تو ڈسٹرکٹ جج اور ہم سب دفتر سے باہر آ گئے۔
یہ بھی پڑھیں: بیرسٹر سیف کی سربراہی میں کے پی کے وفد کا شمالی وزیرستان کا دورہ
جج کا کردار
چوہدری ریاض نے اس خاتون سے پوچھا؛ "بی بی! کیا بات ہے کیوں شور مچا رکھا ہے۔" اس نے ساری بات انہیں سنائی۔ وہ بولے؛ "میں اس کا بندوبست کرتا ہوں۔" دفتر آ کر اُسے بلایا، سر زنش کی اور مجھے کہنے لگے؛ "میرے حلقہ انتخاب کے تمام لیڈیز پولنگ سٹاف کی ڈیوٹی آپ لگاؤ گے۔" شہباز کو کہا؛ "سن لیا، مجھے کوئی شکایت نہ آئے۔" وہ بول تو کچھ نہیں سکتا تھا لیکن اس حکم کا اسے بڑا رنج تھا۔ خیر، حکم کی تعمیل میں وہ خاموش تو ہوا مگر جب بھی موقع ملتا تھوڑی بہت مداخلت کر لیتا۔
یہ بھی پڑھیں: میں اپنی بچہ دانی نکلوانے کی خواہش رکھتی ہوں، مگر ڈاکٹر کہتے ہیں کہ میں ابھی بہت چھوٹی ہوں۔
محبت کا آغاز
گوجرانوالہ میں الیکشن سٹاف کی ڈیوٹی کا کام آخری مراحل میں تھا کہ میں اور ریاض چائے پی کر واپس دفتر جا رہے تھے۔ راستے میں 2 خواتین ملیں جو سکول ٹیچر تھیں۔ تعارف ہوا یہ "حدیث خلجی" اور "رضیہ بٹ" تھیں۔ دونوں ہی مجسمہ حسن۔ الیکشن ڈیوٹی وہ اپنی مرضی کے سٹیشن پر کرنا چاہتی تھیں۔ ہم نے وعدہ کر لیا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کا پاکستان کے خلاف اسرائیلی ساختہ ڈرون کا استعمال لیکن یہ کیا صلاحیت رکھتا ہے؟ تفصیلات سامنے آگئیں
ریاض کی محبت
عین آخری وقت میں ان کے مرضی کے سٹیشن پر ڈیوٹی لگا دی۔ ان چند دنوں میں ہی ریاض رضیہ سے عشق کر بیٹھا۔ پہلی نظر کی محبت۔ بعد میں ریاض نے اپنی محبت سے پہلی بیوی کے ہوتے شادی کر لی لیکن خاندانی دباؤ میں آ کر اسے کچھ عرصہ بعد یہ رشتہ ختم کرنا پڑا تھا۔ حدیث خلجی مجھے اچھی لگی تھی۔ کچھ دوستی بھی رہی لیکن پھر یہ بھی ہواؤں میں کھو گئی اور میں گوجرانوالہ چھوڑ آیا۔
یہ بھی پڑھیں: پہلے جھکے نہ اب جھکیں گے، ہماری شہادت کی آرزو زندگی سے زیادہ ہے: ترجمان پاک فوج
الیکشن کا اختتام
اس زمانے میں الیکشن ڈیوٹی کے لئے پرزئیڈنگ افسر کو پانچ صد روپے، اسسٹنٹ پرزئیڈنگ افسر کو تین صد روپے جبکہ پولنگ افسر کو اڑھائی سو روپے ملتے تھے۔ اتنی قلیل رقم کے لئے سکولوں کے اساتذہ خاص طور پر خواتین اپنی مرضی کے سٹیشن پر ڈیوٹی کے لئے کوئی بھی قیمت دینے کو تیار رہتی تھیں۔ خیر یہ الیکشن خیریت سے گزر گیا۔ اب چند رپورٹس الیکشن کمیشن کو بھجوانے کے علاوہ کوئی کام نہ تھا، مگر یہ ذمہ داری تو جج صاحبان کی تھی لیکن رپورٹس ہم ہی تیار کرتے تھے۔ اب فراغت تھی۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔