وہ میری اور باس کی کمپنی میں خوش رہتی تھی، ذو معنی فقروں سے خوب لطف اندوز ہوتی، ہمارے ساتھ کیلاش وادی جانے کو تیار تھی کہ باس نہ مانے

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 257
لبنیٰ پہنچی امریکہ
لبنیٰ میری اور باس کی کمپنی میں خوش رہتی تھی اور میرے ذو معنی فقروں سے خوب لطف اندوز ہوتی۔ وہ ہمارے ساتھ چترال کی کیلاش وادی جانے کو تیار تھی کہ باس نہ مانے۔ یوں کا ایک شاندار ٹرپ کا خواب ادھورا ہی رہ گیا۔ جلد ہی اس خاتون نے امجد کو اپنے دام الفت میں گرفتار کر لیا۔ امجد نے اپنی ہنڈا سوکس گاڑی اس کے سپرد کر دی۔ لبنیٰ اچھی خاتون تھی لیکن خاوند کی کی گئی زیادتی نہ بھو لی تھی، اکثر اپنے غصے اور انتقام کی بات باس سے زیادہ شئیر کرتی کہ وہ باس کی طرح گو جر برادری سے تھی۔ سکول میں بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا اور لبنیٰ کے انتقام میں بھی۔ ایک روز اس نے بتائے بغیر سکول کے لیٹر ہیڈ پر امریکی ایمبیسی کو چٹھی لکھ کر امریکی ویزا کے لئے اپلائی کیا جو اسے مل گیا۔ وہ کسی کو ملے بغیر مگر باس کو بتا کر امریکہ چلی گئی۔ اس سے آج تک دوبارہ ملاقات نہ ہوئی۔ امجد اس جدائی کا صدمہ برداشت نہ کر سکا، بہت دل برداشتہ ہوا کہ وہ اپنا بہت کچھ اسے دے چکا تھا۔
سکول کی کامیابی
اس کے جانے کے بعد میں اور باس نے سکول کو ایک سال تک بڑی کامیابی سے چلایا۔ پھر ہم دونوں کا یکے بعد دیگرے تبادلہ ہو گیا۔ امجد کی سمجھ سے یہ کام بہت اوپر تھا، انجام سکول کے خاتمے کی صورت نکلا۔ بچوں کے والدین کو اس بھی اس کا صدمہ پہنچا۔ مجھے قوی امید تھی کہ اگر ہم دونوں کچھ دیر اور وہاں رک جاتے تو یہ علاقے کا بہترین سکول ہوتا۔
اپنڈیکس اور عمر صاحب
عمر اب ماشاء اللہ کلاس ون میں پہنچ گیا تھا۔ ایک روز سکول گیا سے صبح 10 بجے کے قریب سکول سے فون آیا کہ اس کی طبیعت خراب ہے میں اسے گھر لے آیا۔ اُسے قے کی شکایت ہو رہی تھی۔ ڈاکٹر منہاس صاحب کے پاس لے گیا، انہوں نے کچھ ادویات تجویز کیں مگر شام تک کوئی آفاقہ نہ ہوا تو میں اسے لالہ موسیٰ ڈاکٹر شفقت کے پاس لے آیا کہ وہ عمر اور احمد کے فیملی ڈاکٹر تھے۔ پیدائش سے ہی وہ دونوں انہی کے زیر علاج رہے تھے۔ انہوں نے کچھ ادویات تجویز کیں اور ہم گھر آ گئے۔ اگلے روز بھی اس کی طبیعت میں کچھ زیادہ فرق نہ آیا تو دوبارہ ڈاکٹر شفقت کے پاس گئے۔ انہوں نے ایک آدھ دوائی تبدیل کر دی۔
ادریس بھائی کا گھر
واپسی پر ہم ادریس بھائی کے گھر رک گئے کہ ان کے بچے عمر اور احمد کے ہم عمر تھے۔ عمر جب چھوٹا سا تھا تو روز رات دو تین بجے کے درمیان جاگ جاتا، دودھ پیتا، میرے ساتھ کچھ دیر شرارتیں کرتا اور پھر میرے سینے پر ہی سوجاتا تھا۔ میں ہلتا تو اس کی آنکھ کھل جاتی تھی لہٰذا میں دم سادھ کے ہی لیٹا رہتا۔ ہم لاہور جاتے اور عظمیٰ کچھ دنوں کے لئے اپنے والدہ کے گھر رک جاتی تو عمر میرے ساتھ ہی لالہ موسیٰ یا کھاریاں چلا آتا۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔