طوطی کی آواز نقار خانے میں کون سنتا ہے ؟

تحریر کا آغاز
تحریر: طارق محمود جہانگیری کامریڈ
طوطی کی آواز نقار خانے میں کون سنتا ہے ، اردو زبان کی یہ ایک بہت ہی مشہور کہاوت ہے۔ اس ضرب المثل کو محاورے کے طور پر بھی بولا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ طوطی کو نقار خانے میں بولنے کی ضرورت کیا ہے؟
یہ بھی پڑھیں: مبینہ فحش ویڈیوز لیک ہونے پر ٹک ٹاکر سامعہ حجاب نے بھی خاموشی توڑ دی
نقار خانے کی صورتحال
نیوز چینل کے بہت سے ٹاک شوز میں عجیب و غریب تجزیے دیکھنے، سننے، قومی اخبارات میں کچھ قصہ خوانی طرز کے، کچھ فکر انگیز کالمز بھی پڑھنے کو ملتے ہیں لیکن سنجیدہ فکری کالم نگاروں کو سمجھانے کی یہ جسارت کون کرے کہ جناب عالی اس نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ سچ پوچھئے تو اس وقت نقار خانے میں اتنا شور وغل ہے کہ نقارہ بجانے والا خود اپنی آواز نہیں سن رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ حکومت کا محکمہ تعلیم میں 90 ہزار اساتذہ بھرتی کرنے کا فیصلہ
ماضی کے درباری مؤرخین
برصغیر کے خوشامدی درباری قصہ گو فسانہ نگار مورخین کا اب دور نہیں رہا کہ جنہوں نے اپنی فسانہ عجائب تواریخ میں سلاطین ہند کے فرضی کرداروں، جھوٹے حالات و واقعات، من گھڑت کہانیاں بیان کرکے یہاں کے خوابیدہ قارئین کو ایک دراز عرصہ تک اپنے سحر انگیز تحریروں میں گرفتار کئے رکھا۔
یہ بھی پڑھیں: آدمی کے تکیے کے نیچے سے ایسی چیز نکل آئی کہ نیند کے ساتھ ہوش بھی اڑ گئے
مغربی مورخین کا ورود
سائنسی علوم سے آشنا مغربی مورخین جب برصغیر میں ابر رحمت بن کر آئے تو ہندوستان کے بازاری مورخین جن کی طوطا کہانی تواریخ جس میں ایک حقیقت ہزاروں فسانے ہوتے تھے۔ ان قصہ گو مورخین کو اپنی دانشمندی کی دکانداری کے لیے ویرانوں میں بھی جائے پناہ نہ ملی۔
یہ بھی پڑھیں: سنی اتحاد کونسل میں 39امیدواروں نے شمولیت اختیار کی، باقی 40نے کیوں نہیں کی؟جسٹس محمد علی مظہر
تجزیہ نگاری کا تبدیل شدہ منظر نامہ
ہمارے پروفیسر ڈاکٹر مبارک علی واحد ایسے قلمکار اور تجزیہ نگار باقی رہ گئے ہیں جن کو مؤرخین کی تراشی گئی بھوت پریت کہانیاں سنانے میں ہی اپنی دانشمندی نظر آتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دہشتگردی کیخلاف خیبرپختونخوا پولیس کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں: محسن نقوی
سہیل وڑائچ کا کالم
صحافت نے مستند تاریخ کی حیثیت حاصل کرلی ہے۔ ایک ذمہ دار صحافی نے مؤرخ کا درجہ لے لیا ہے۔ سہیل وڑائچ ہمارے ملک کے ایک تجربہ کار تجزیہ نگار، صحافی اور معروف کالم نگار ہیں۔ اپنے سنسنی خیز کالمز کی بدولت کئی مرتبہ تہلکہ خیزی مچا چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آغا علی نے حنا الطاف کی طلاق کی تصدیق کی
معاف کرنے کا مطالبہ
ان کے متنازعہ کالم کی وجہ سے بھونچال آگیا۔ زور دار جھٹکوں سے بڑے بڑے ایوانوں اور مظبوط قلعوں کی اونچی اونچی دیواریں بھی لزرا اٹھیں۔ سہیل وڑائچ سے ذاتی رنجش اور پیشہ ورانہ صحافتی عناد رکھنے والے بعض اخبار نویس نے ان کو درباری مؤرخ بھی قرار دے دیا۔
یہ بھی پڑھیں: سوات کا پہلا بورڈ آف سٹڈی اجلاس، تعلیمی و تحقیقی معیار میں بہتری کے لیے تجاویز پر غور
سوشل میڈیا کی بحث
اس وقت صحافی سہیل وڑائچ کا ایک کالم معافی و تلافی، پاکستان آرمی چیف سے برسلز میں ملاقات اور اس میں ہونے والی گفتگو کی خبر ملک بھر میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ جمرات کو ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے اس خبر کی تردید کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان کو پاکستان کے ساتھ تنازع مہنگا پڑگیا، خشک میوہ جات کی برآمد میں کمی
سیاسی اور سماجی تنقید
ہماری بہت سے کہنہ مشق صحافی حضرات کو بھی فیلڈ مارشل سے ملاقات پر شائع کردہ کالم کے مندرجات، بیان کیے گئے سوالات کی صحت پر تشویش ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قومی ایئرلائن کی نجکاری کے لئے 4 پارٹیاں شارٹ لسٹ
موجودہ سیاسی صورتحال
پاکستان میں گزشتہ کچھ سالوں کے دوران جو سیاسی تناو پیدا ہوا ہے، بےچینی، سیاسی افراتفری کا جو عالم اور بےیقینی کی جو فضا پائی جارہی ہے، اس میں ڈیجیٹل بازی گری مداریوں کا بڑا عمل دخل ہے۔
خلاصہ
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان دنیا کا شاید واحد ملک ہوگا جس کے ماضی کے متعلق تو بہت کچھ کہا اور لکھا جاسکتا ہے لیکن مستقبل کے بارے میں کوئی بھی پیشنگوئی نہیں کی جاسکتی۔