بچیاں پڑھ کر افسر بنیں تو لالہ دنیا سے جا چکے تھے، اچھے بھلے تھے کسی کو تکلیف دیئے بغیر ابدی گھر چلے گئے، نیک لوگوں کی روحیں یونہی پرواز کرتی ہیں

مصنف کا تعارف
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 267
یہ بھی پڑھیں: بھارتی حملہ کھلی جنگی جارحیت ہے،، ڈی جی آئی ایس پی آر کی سی این این سے گفتگو
خونن کا لالہ اعجاز
آصف قریشی کی جگہ محمد اکرم چیمہ اے سی آئے۔ یہ سال بھر ہی یہاں رہے اور ٹرانسفر ہو گئے۔ ”خونن“ گاؤں کے رہنے والے لالہ اعجاز سفید پوش، سادہ دیہاتی مگر انتہائی مخلص انسان تھے۔ میں اکثر سردی کے موسم میں لالہ کے ڈیرے جاتا اور مٹی کی بنی بڑی سی انگیٹھی پر آگ تاپتا۔ لالہ کے بڑے بھائی ”لال خاں“ ریٹائیرڈ سکول ٹیچر اور اعلی انسان تھے۔ گاؤں کے نمبر دار اور پورے علاقے میں انتہائی عزت و تکریم سے دیکھے جاتے تھے۔ لالہ کے ڈیرے پردیسی گھی کا تڑکہ لگی دال میری من پسند خوارک اور لالہ سے اسی کی فرمائش ہوتی تھی۔ بھابھی صاحبہ بھی اس دال کو دیسی گھی سے بھر دیتی تھیں۔ لالہ میرے ہر دکھ سکھ میں شریک رہا۔ وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے ہمیشہ فکر مند رہتے تھے۔ اپنے گھریلو مسائل کا مجھ سے اکثر تذکرہ کرتے۔ افسوس جب لالہ کی بچیاں پڑھ کر افسر بنیں تو لالہ دنیا سے جا چکے تھے۔ اچھے بھلے تھے کسی کو تکلیف دئیے بغیر اناً فانی دنیا سے اپنے ابدی گھر چلے گئے۔ نیک لوگوں کی روحیں یونہی پرواز کرتی ہیں۔ میں ان کے لئے اور تو کچھ نہیں کر سکتا تھا بلکہ بلا ناغہ اللہ سے ان کی مغفرت کی دعا ضرور کرتا ہوں۔ مجھے قوی امید ہے اللہ نے اپنے اس مخلص اور محبت کرنے والے بندے کو اپنے جوار رحمت میں اونچا مقام دیا ہو گا۔ ان کے بچوں سے میرا رابطہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سب سے اہم کام مختلف اسٹیشنوں سے لائی گئی رقوم وصول کرنا ہوتا ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ گارڈ رقم گن کر کسی کو پکڑا دے یا نوٹوں سے بھرالفافہ تھما دے۔
عشرت علی کا تعارف
اکرم چیمہ کی جگہ جڑانوالہ کے رہنے والے سی ایس پی افسر عشرت علی اے سی کھاریاں تعینات ہوئے۔ (بعد میں رجسٹرار سپریم کورٹ رہے۔) یہ غالباً ایریل 98 کی بات تھی۔ جلد ہی ان سے پہلی ملاقات دوستی میں بدل گئی۔ یہ کم گو مگر دوستدار انسان تھے۔ انہیں کہیں بھی جانا ہوتا مجھے ساتھ ہی لے کر جاتے تھے۔ میں نے انہیں انکل نذیر سے ملوایا اور وہ عشرت کے بھی انکل ہو گئے۔ گوجرنوالہ کے مشہور سیاسی شخصیت چوہدری محمد اقبال گجر کے فرزند آصف اقبال ان دونوں تحصیل دار کھاریاں تھے۔ یہ بھی خاندانی آدمی تھے۔ کئی سال پہلے اس نے سرکاری نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور خاندانی سیاست کا علم اٹھا لیا تھا۔ عمران خاں کے دور کی مشہور زمانہ فرح گوگی اس کی بھابھی اور اس کے بڑے بھائی چوہدری جمیل گوجر کی بیوی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: واشنگٹن کی اہم عمارتوں کے باہر حفاظتی دیواریں کھڑی کردی گئیں، مگر کیوں؟ وجہ جانیے
بلدیاتی الیکشن 98
یہ بلدیاتی الیکشن کا بھی سال تھا۔ میرے بہت سے دوست ان الیکشن میں بلدیاتی لیول کے امیدوار تھے۔ کوئی ضلع کونسل کا انتخاب لڑ رہا تھا تو کوئی چیئرمین یونین کونسل کا۔ ان میں چوہدری عرفان ملوانہ اور چوہدری آصف دھوریہ ضلع کونسل گجرات کے امیدوار تھے جبکہ عرفان کا چچا بھائی چوہدری ساجد چیئرمین یونین کونسل مرزا طاہر کا امیدوار تھا۔ یہ سبھی مجھے عزیز تھے۔ بلدیاتی الیکشن میں مقابلے کانٹے کے ہوتے تھے اور تلخیاں اور لڑائی جھگڑے بھی آفت ہی ہوتے۔ الیکشن کی ساری تیاری مکمل تھی۔ ایک روز میاں طارق ایم پی اے عشرت علی کے پاس آئے اور میری شکایت کرتے کہا کہ "یہ چوہدری عرفان ملوانہ کی مدد کر رہا ہے۔" اے سی نے مجھے بلا بھیجا اور کہا "میاں طارق یہ شکایت کر گیا ہے۔" میں نے جواب دیا کہ; "سر! میں نے عرفان کی کوئی غیر قانونی مدد نہیں کی۔ بس عملہ اپنی مرضی سے اس کے ڈیرے پر قیام کر رہا ہے۔ ویسے بھی سر اگر اپنے یاروں کی اتنی مدد نہیں کرنی تو کیسی افسری۔" وہ کہنے لگے؛ "ٹھیک ہے جو مرضی کر مگر پیچھے رہ کر۔ اسے میں خود ہی دیکھ لوں گا۔" میاں طارق کی انتہائی مخالفت کے باوجود عرفان اور آصف ضلع کونسل گجرات کے ممبر منتخب ہوئے اور عرفان کا چچا زاد بھائی اپنی یونین کونسل مرزا طاہر کا چیئرمین بن گیا۔ زندگی یاروں کی بہاروں کا نام ہے۔ میں نے نوکری میں ایک اصول اور بھی اپنایا؛ "افسری اور پوسٹنگ صدا ایک جگہ نہیں رہتی لہذا دوستوں اور غریب کے لئے کچھ "آؤٹ آف دی وے" بھی کرنا پڑے تو کرنا چاہیے۔" (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔