پی پی رہنما سعید غنی کا بھائی اور ساتھیوں سمیت گرفتار، مقدمہ درج

پیپلزپارٹی کے رہنما کا بھائی گرفتار
کراچی (ڈیلی پاکستان آن لائن) پیپلزپارٹی کے رہنما اور صوبائی وزیر سعید غنی کے بھائی فرحان غنی کو پولیس نے تشدد کے الزام میں ساتھیوں سمیت گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا۔
یہ بھی پڑھیں: ججوں کی سینیارٹی لسٹ دہائیوں میں بنتی ہے،راتوں رات سینیارٹی لسٹ ایگزیکٹو کے ذریعے تبدیل کرنا غاصبانہ عمل ہے،وکیل فیصل صدیقی۔
گرفتاری کا پس منظر
نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز کے مطابق فرحان غنی اور ان کے ساتھیوں کو سرکاری اہلکار پر تشدد کے بعد باقاعدہ حراست میں لے لیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: انڈونیشیا کے وزیر دفاع کا وفد کے ہمراہ جی ایچ کیو کا دورہ، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے ملاقات
مقدمہ درج ہونے کی تفصیلات
پولیس ذرائع کے مطابق فرحان غنی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف فیروز آباد تھانے میں سرکاری اہلکار پر تشدد کا مقدمہ دہشتگردی دفعات کے تحت درج کر لیا گیا۔
پولیس کے مطابق سرکاری اہلکار کی جانب سے درخواست جمع کرائے جانے کے بعد کارروائی کی گئی، مقدمے کے اندراج کیلیے مزید تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈی چوک یا سنگجانی جانا ہمارا اندرونی معاملہ تھا، سوال یہ ہے کہ گولی کیوں چلائی گئی؟ علی محمد خان کا استفسار
ایف آئی آر کی شمولیت
رپورٹ کے مطابق ایف آئی آر میں اقدام قتل، جان سے مارنے کی دھمکی اور دیگر دفعات شامل ہیں۔ مقدمے کے متن میں فرحان غنی کے علاوہ قمر الدین، شکیل چانڈیو، سکندر اور روحان کے نام بھی شامل ہیں۔
مقدمہ سرکاری اہلکار حافظ سہیل کی مدعیت میں درج کیا گیا، جس میں مدعی کا کہنا ہے کہ میں سرکاری ملازمت کرتا ہوں، 22 اگست کو سروس روڈ شارع فیصل پر ڈیوٹی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعے) کا دن کیسا رہے گا ؟
تشدد کی تفصیلات
ایف آئی آر متن کے مطابق مدعی نے بتایا کہ زمین میں فائبر آپٹک کیبل بچھانے کے کام کی نگرانی کرنا تھی، کام کے دوران 3 گاڑیوں پر 20 سے 25 افراد پہنچے۔
تشدد کرنے والوں کے نام فرحان غنی، قمرالدین، شکیل، سکندر، روحان معلوم ہوئے ہیں۔ مدعی کے مطابق اگر دوسرے افراد سامنے آئیں تو وہ انہیں شناخت کرسکتا ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: بار بار دلائل سے وقت ضائع ہوگا، اب ضمانت کی درخواستوں پر فیصلہ ہونا چاہئے، جج اے ٹی سی کابیرسٹر سلمان صفدر سے مکالمہ
حادثے کی تفصیلات
مدعی کے مطابق گاڑیاں رکی تو ان میں سے ایک شخص نے مجھے بلایا اور کہا کہ صاحب پوچھ رہے ہیں کس کی اجازت سے زمین کھود رہے ہو۔
میں نے تعارف کروایا اور کہا کہ سرکاری اداروں کی این او سی سے کام ہورہا ہے، ان لوگوں نے مجھ سے بدتمیزی شروع کردی اور کہا کام بند کردو۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کی 2 خواتین رہنما گرفتار
خطرناک صورتحال
مدعی نے بتایا کہ انہوں نے گالم گلوچ کرتے ہوئے مارپیٹ شروع کردی، 4 سے 5 مسلح افراد نے جان سے مارنے کی نیت سے مجھ پر اسلحہ تان لیا۔
اسی دوران ان میں سے کسی نے کہا 15 بلاؤ اور ان کے حوالے کرو، پھر مجھے زبردستی گھسیٹتے ہوئے پیٹرول پمپ کے کمرے میں بند کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: چمن پولیس کے ایس ایچ او کا واش روم میں دم گھٹنے سے انتقال
پولیس کی مداخلت
کمرے میں بھی مجھے مار پیٹ کرتے رہے، پولیس وہاں پہنچی اور مجھے چھڑوا کر وہاں سے تھانے لے آئی۔ یہ لوگ وہاں کام کرنے والے مزدوروں کا سارا سامان بھی اپنے ساتھ لے گئے۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق مدعی مقدمہ حافظ سہیل نے بتایا کہ پولیس مجھے تھانے لے کر پہنچی تو یہ بھی پیچھے سے تھانے آگئے۔
اختتام
ڈیوٹی پر موجود پولیس افسر کو میرے خلاف کارروائی کے لیے دھمکاتے رہے۔ ان کے جانے کے بعد میں تھانے سے نکل کر دفتر پہنچا اور پھر گھر آیا، ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔