“مارکوپولو” کی ڈاکومنٹری نے اندر کے سیاح کو جگا دیا، خنجراب جانے کا پروگرام بنا یا،کیا ایڈونچر تھا،مڈ سلائیڈ میں برے پھنسے،گلگت سے ہی واپس آگئے

مصنف

شہزاد احمد حمید
قسط: 269

یہ بھی پڑھیں: زمبابوے کیخلاف تیسراون ڈے، قومی ٹیم کے2کھلاڑی انجری کا شکار

میرے اندر کا سیاح

ایک رات میں کئی قسطوں پر مشتمل "مارکو پولو" کی ڈاکومنٹری دیکھ رہا تھا۔ شاندار انداز میں فلمائی گئی اس ڈاکومنٹری نے میرے اندر کے سیاح کو جگا دیا۔ خیر جیسے ہی یہ ڈاکومنٹری ختم ہوئی میں مشتاق، مرتضیٰ اور صوفی نذیر کے ساتھ خنجراب جانے کا پروگرام بنا یا۔ اپنی کار میں اس دور کے سفر پر روانہ ہوا، کیا ایڈونچر تھا وہ۔ خیر ہم گلگت سے ہی واپس آگئے۔ واپسی پر ہم مڈ سلائیڈ میں برے پھنسے تھے۔ اس بھیانک رات طوفانی بارش تھی۔ اس پہلے سفر کے بعد شمالی علاقہ جات کا سفر ہر سال ہی کرتا۔ یہی سفر میرے پہلے سفر نامے "قراقرم کے ساتھ ساتھ" کی بنیاد بنے۔

یہ بھی پڑھیں: اويس لغاری نے بجلی کے فی یونٹ قیمت پر ریلیف کے خاتمے کی خبروں کی تردید کردی

پہلا سفر نامہ: "قراقرم کے ساتھ ساتھ"

چندا گھر لاہور گئی ہوئی تھی۔ میں گھر پر اکیلا تھا۔ چندا کے بغیر مجھے نیند کم ہی آتی تھی۔ اس روز بھی نیند مجھ سے کوسوں دور تھی۔ میں چارپائی پر کروٹیں بدل رہا تھا۔ چند ہفتے پہلے ہی خنجراب کی سیر سے واپس آیا تھا۔ دل میں خیال آیا کہ چلو اس سفر پر کچھ لکھتے ہیں۔ لکھنے لگا تو وقت کا پتہ ہی نہ چلا اور فجر کی اذانیں سنائی دینے لگیں۔ کل پنتیس چالیس صفحے انگریزی میں لکھ چکا تھا۔ نماز پڑھ کر سویا تو آنکھ 8 بجے کے قریب کھلی۔

یہ بھی پڑھیں: کیرم کی عالمی چیمپیئن کاظمہ: “جیت کے بعد باتیں کرنے والے مبارکباد دے رہے ہیں”

ریاض صاحب

ریاض صاحب کی پوسٹنگ ان دنوں ڈنگہ تھی وہ آتے جاتے میرے پاس رک کر ہی جاتے تھے۔ وہ کمال نیک انسان تھے۔ پر ہیز گار اور پانچ وقت کے نمازی۔ مجھے بھی نماز کی طرف راغب کرنے میں ان کا بڑا ہاتھ تھا۔ وہ میرے دوست بھی تھے، بڑے بھائی بھی، استاد بھی، اور باس بھی۔ مجھے یہ سارے رشتے ہی عزیز تھے۔ خیر وہ آئے تو میں نے انہیں رات کی تحریر دکھائی۔ وہ کچھ صفحات پڑھ کر کہنے لگے، اچھی تحریر ہے لیکن بہتر ہو گا کہ اردو میں لکھو۔ یوں مجھے رات کا ہوم ورک مل گیا۔ آنے والی ساری رات میں ان صفحات کا اردو ترجمہ کرتا رہا۔ یوں پہلے سفر نامے "قراقرم کے ساتھ ساتھ" کا آغاز ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی کے کباب اور ربڑی نے امریکی سفیر کا دل موہ لیا

کتاب کی اشاعت اور جذبات

مجھے مکمل کرنے میں عرصہ لگا۔ میں لاہور بھی آتا تو لکھنے کا کام جاری رکھتا۔ امی جی مجھے کہتی؛ "بھائی جان! توں کی لکھ دا راہنداں اے۔ بس کر اکھیاں کمزور ہو جاں گی۔" مجھے عمر بھر دکھ رہا جب یہ سفر نامہ "4 مکتبہ عالیہ" نے چھاپا مگر تب میری امی جی زندہ نہ تھیں۔ اگر زندہ ہوتیں تو بہت خوش ہوتیں، دعائیں دیتیں اور رشتہ داروں اور دوسرے لوگوں کو فخر سے بتاتیں کہ میرے "بھائی جان" نے کتاب لکھی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مولانا فضل الرحمان اور بلاول بھٹو حکومت سے نالاں کیوں ہیں۔۔۔؟ وجوہات سامنے آ گئیں

غالب صاحب کا کردار

اس کتاب میں اپنی والدہ پر لکھا ایک پیرا گراف میرے ہی نہیں ہر پڑھنے والے کے دل میں اتر گیا تھا۔ اللہ امی جی کے درجات بلند کرے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین۔ اس سفر نامے کی نوک پلک درست کرنے اور حواشی لکھنے میں غالب صاحب کا بڑا کردار تھا۔ غالب صاحب گوالمنڈی کے رہنے والے سفید پوش مگر انتہائی پڑھے لکھے اور معلومات کا خزانہ تھے۔ مالی مشکلات نے انہیں کبھی بھی اپنے پورے potential پر کام نہیں کرنے دیا۔ جب کتاب چھپی تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔ مجھے یاد ہے انہوں نے کسی اخبار میں اس پر کالم بھی لکھا تھا۔ افسوس، ان کی وہ تحریر مجھ سے کہیں کھو گئی۔ دس بارہ سال پہلے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔ اللہ ان کی مغفرت کرے۔ آمین۔

نوٹ

یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...