حکومت نے کوئی فیصلہ نہ کیا، یوں ایک اور عجوبہ لائن کا اختتام ہوا، جسے دیکھنے کے لیے غیر ملکی سیاح بھی یورپ اور امریکہ وغیرہ سے آتے رہے تھے۔

مصنف کی معلومات
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 229
یہ بھی پڑھیں: شپ لانچ کے دوران حادثہ، شمالی کوریا نے تین اعلیٰ عہدیدار گرفتار کر لیے
تاریخی ریلوے لائن کا مسئلہ
2019ء میں ایک سروے کے مطابق اس تاریخی ریلوے لائن کو ایک بار پھر بحال کرکے اس پر ریل گاڑی چلانے کیلئے کوئی ایک ڈیڑھ ارب روپے درکار تھے لیکن حکومت نے ابھی تک اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ یوں پاکستان ریلوے کی ایک اور عجوبہ لائن کا اختتام ہوا، جسے دیکھنے کے لئے مقامی لوگوں کے علاوہ غیر ملکی سیاح بھی یورپ اور امریکہ وغیرہ سے آتے رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: زرعی شعبہ بحران کا شکار، ترقی کی شرح 6.4 سے گر کر 0.56 فیصد پر آ گئی
پرانی یادیں
1970-80ء کی دہائی میں افغانستان کے راستے جو ہزاروں کی تعداد میں غیر ملکی خصوصاً ہپی پاکستان میں داخل ہوتے تھے، وہ سستے سفر کی خاطر اور درہ خیبر کا حسن دیکھنے کے لیے اس گاڑی سے پشاور تک کا سفر کیا کرتے تھے۔ مجھے بھی کوئی 50 برس پہلے اس گاڑی میں سفر کرنے کا موقع ملا تھا تب یہ بڑی باقاعدگی سے اپنے طے شدہ نظام الاوقات کے مطابق چلا کرتی تھی۔ لنڈی کوتل تک کا یہ ایک انتہائی خوبصورت اور یادگار سفر تھا جو کبھی بھلایا نہیں جا سکا۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف کی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کیلئے سخت شرائط
مستقبل کی امیدیں
بہت ممکن ہے کہ آئندہ جب افغانستان کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات بہتر ہو جائیں تو یہاں سے ایک مرتبہ پھر جدید ریلوے لائن گزر کر افغانستان کی طرف نکل جائے۔
یہ بھی پڑھیں: سیاسی تقسیم، مخصوص بیانیہ تھوپنے کی روش، گروہی میڈیا۔۔؟ قوم کو خود اپنا چراغ جلانا ہوگا
پاکستان-ہندوستان سمجھوتہ ایکسپریس
لاہور- امرتسر- دہلی
شہر لاہور سے کچھ دور نہیں ہے دہلی، ایک سرحد ہے کسی وقت بھی مٹ سکتی ہے۔ لاہور- امرتسر کے درمیان یہ ریلوے لائن تو اسی وقت بن گئی تھی جب لاہور کو ملتان اور بعدازاں کراچی سے ملایا گیا تھا۔ امرتسر سے آگے یہ دہلی والی مرکزی لائن سے مل جاتی تھی۔ یوں وسطی پنجاب اور پشاور سے ہندوستان کے مختلف شہروں کو جانے والے مسافر زیادہ تر اسی راستے کو اپناتے تھے۔ البتہ کراچی اور کوئٹہ کی طرف سے آنے والے مسافروں کے پاس اس لائن کے علاوہ ایک اور متبادل انتخاب کراچی- سمہ سٹہ - بٹھنڈہ سے دہلی بھی تھا۔
یہ بھی پڑھیں: آئی جی پنجاب پر اعتبار نہیں، بشریٰ بی بی بہت اہم ہیں، شیخ وقاص اکرم
تاریخی پس منظر
قیام پاکستان، بلکہ اس کے کچھ عرصے بعد تک دہلی - امرتسر اور لاہور کے بیچ گاڑیاں آزادانہ طور پر چلتی رہیں، تب دونوں طرف پیچھے رہ جانے والے مہاجر بھی اپنے نئے منتخب کیے ہوئے وطن کو پہنچ رہے تھے۔ ویزا کی بھی کوئی خاص پابندی نہ ہوتی تھی، ایک عام سی سفری دستاویز ہی کافی ہوتی تھی۔ ابھی پاسپورٹ کا جھنجٹ بھی نہیں تھا اس لیے دونوں طرف سے مسافروں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ملک ریاض سے ڈیل اور صدر کے استعفے کی خبریں جعلی ہیں : سید طلعت حسین
نئی صورتحال
پھر حالات نے کروٹ لی اور دونوں ملکوں کے درمیان کچھ کشیدگی ہوئی تو لاہور سے امرتسر کے ذریعے ہندوستان جانے والی سب گاڑیاں بھی بند ہو گئیں۔ اس کے بعد ہندوستان سے بذریعہ سڑک، بحری یا ہوائی جہاز سے رابطہ تو ممکن تھا، لیکن لاہور سے کوئی ریل گاڑی واہگہ کے اس پار نہیں جاتی تھی۔ البتہ پاکستان سے ایک ریل گاڑی سندھ میں کھوکھرا پار سے ہندوستان کے شہر جودھ پور تک آتی جاتی رہی۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔