ڈاکوؤں نے بس رو کی، بندوق کے زور میں ویرانے میں لے گئے اور لوٹنے لگے، ہیرے کی انگوٹھیاں اتروائیں ”چاندی کی ہیں“ کہہ کر پھینک دیں

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 271
بس ڈکیتی اور عظمیٰ
عظمیٰ لاہور گئی ہوئی تھی جبکہ دونوں بچے میرے پاس کھاریاں تھے۔ یہ اُس روز اپنے بہنوئی خلیل بھائی کے ساتھ 5 بجے شام بس سے کھاریاں کے لئے روانہ ہوئی۔ زیادہ سے زیادہ 8 بجے تک اسے کھاریاں پہنچنا تھا۔ یہ بس لاہور سے پنڈی جاتی تھی۔ بس سروس کے مالک چوہدری ضیاء محی الدین میرے بہت اچھے دوست تھے۔ انہی کی وجہ سے بس میرے گھر کے بالکل سامنے رکتی اور لاہور سے آنے والے میرے مہمان کو اتار کر اپنا سفر جاری رکھتی تھی۔ (ضیاء ولایت سے پڑھا سلجھے ہوا اور نفیس خاندانی شخص میرا فیملی فرینڈ تھا۔ ان کے والد ریٹائیرڈ کرنل تھے جبکہ والدہ اعلیٰ خاتون تھیں اور ہمیشہ دعائیں دیتی۔ افسوس دعائیں دینے والی یہ شخصیت بھی اپنے رب کے حضور پیش ہو چکی ہے۔)
رات 10 بج گئے بس نہ پہنچی۔ طرح طرح کے وسوسے دل میں گھر کرنے لگے تھے۔ لاہور والے گھر والے بھی پریشان تھے۔ بس سروس سے بھی پتہ کیا، وہ بھی کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ صوفی نذیر کے ساتھ میں دو تین چکر کھاریاں کینٹ تک لگا چکا تھا مگر نہ بس کا پتہ چلا اور نہ ہی عظمیٰ اور خلیل بھائی کا۔ میں اور صوفی جی ٹی روڈ پر ہی کھڑے ان کا انتظار کر رہے تھے۔ آخر کوئی ساڑھے گیارہ بجے ایک بس ہمارے قریب آ کر رکی۔ صوفی بولا؛ "سر! باجی آ گئی ہے۔" ہم دوڑ کر سڑک کے اُس پار گئے۔ عظمیٰ اتری اور میرے گلے لگ کر رونے لگی۔ پیچھے سے خلیل بھائی بھی اتر آئے۔ وہ بھی بہت پریشان تھے۔
معلوم ہوا بھمبر نالے کے پل پر ڈاکوؤں نے بس روکی، بندوق کے زور میں ویرانے میں لے گئے اور مسافروں کو لوٹنے لگے۔ عظمیٰ کے پرس سے کچھ پیسے نکالے، نا جانے کیسے اس کی ہیرے کی انگوٹھیاں بچ گئیں۔ ایک ڈاکو نے یہ اتروائیں بھی لیکن پھر؛ "چاندی کی ہیں" کہہ کر پھینک دیں۔ خلیل بھائی کو پستول کا بٹ بھی مارا۔ مسافروں کو لوٹ کر وہ اندھیرے میں رفو چکر ہو گئے۔ یوں انہیں گھر پہنچنے میں اتنی تاخیر ہو گئی تھی۔ وہ دن اور آج کا دن، پھر عظمیٰ نے بس میں سفر نہیں کیا۔ یہ اللہ کی خاص کرم نوازی تھی کہ معمولی نقصان سے ہی چھٹکارہ ہو گیا ورنہ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ کسی بھی مسافر کو کوئی گزند نہ پہنچی تھی۔ جب اللہ مہربان ہو تو پھر کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔
گھر پر چوری
ایک میٹھی عید کی چھٹیوں پر ہم لاہور چلے گئے۔ اپنی طرف سے تو گھر لوک کیا تھا لیکن شاید کوئی دروازہ کھلا رہ گیا تھا۔ صوفی کی ڈیوٹی بھی تھی کہ گھر کا خیال کرے۔ عید کا تہوار ہی ایسا ہوتا ہے کہ سبھی کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ دن اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کے درمیان گزارے۔ کہیں غفلت ہوئی ہو گی۔
واپس کھاریاں آئے تو گھر کا دروازہ ویسے تو بند تھا لیکن تالہ نہیں لگا تھا۔ اندر داخل ہوئے تو سونی کمپنی کا ٹیپ ریکارڈر اور میری شادی کی راڈو گھڑی غائب تھی۔ تلاش کے باوجود نہ مل سکی۔ مجھے اس گھڑی کے گم ہو جانے کا ہمیشہ بہت افسوس رہا کہ وہ مجھے بہت پسند تھی۔ ایسی اونچ نیچ زندگی کا حصہ ہے۔ بس جان سلامت رہنی چاہیے۔
(جاری ہے)
نوٹ:
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔