اسلام آباد ہائیکورٹ؛ 3 سالہ بچی سے زیادتی کے کیس میں باپ کی ضمانت منظور

ہائی کورٹ نے باپ کی ضمانت منظور کر لی
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) ہائی کورٹ نے 3 سالہ بچی سے مبینہ جنسی زیادتی کے الزام میں گرفتار سگے باپ کی ضمانت منظور کر لی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مقدس اوراق کی حرمت کے پیشِ نظر بڑا فیصلہ
عدالتی فیصلے کی تفصیلات
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق جسٹس طارق محمود جہانگیری نے تحریری فیصلے میں قرار دیا کہ اگر ملزم ضمانت کا غلط استعمال کرے یا ٹرائل میں تاخیر کا باعث بنے تو ضمانت منسوخ کی جا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایل پی جی کی قیمت میں اضافہ
مچلکوں کے عوض ضمانت
عدالت نے ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت دیتے ہوئے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 497 کا حوالہ دیا اور کہا کہ مزید انکوائری والے کیسز میں ضمانت دی جا سکتی ہے۔ صرف جرم کی سنگینی عدالت سے ضمانت دینے کا اختیار چھیننے کے لیے کافی نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مسلم ٹاؤن موڑپر پتنگ کی ڈور پھرنے سے موٹر سائیکل سوار زخمی، وزیر اعلیٰ پنجاب کا اظہار برہمی ، رپورٹ طلب کر لی
ضمانت کی نوعیت
فیصلے میں سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلے کا حوالہ بھی دیا گیا کہ ضمانت ملزم کی بریت نہیں بلکہ صرف کسٹڈی کی تبدیلی ہوتی ہے۔ ضمانت کا مطلب یہ ہے کہ ملزم کو حکومتی ایجنسیوں کی تحویل سے ضامن کے سپرد کیا جائے اور ضامن اس بات کا پابند ہو کہ ضرورت پڑنے پر ملزم کو عدالت کے سامنے پیش کرے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ مریم نواز نے پنجاب میں پینے کے صاف پانی کے پراجیکٹ شروع کرنے کا اعلان کر دیا
پٹیشنر کا پس منظر
تحریری فیصلے کے مطابق پٹیشنر محمد حسیب حفیظ 3 ماہ سے جیل میں تھا اور ٹرائل میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی۔ پٹیشنر کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ یہ گھریلو جھگڑے کا معاملہ ہے اور ملزم کو جھوٹے مقدمے میں پھنسایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: طیارہ حادثے کے شکار پاک فضائیہ کے پائلٹ نے سب سے پہلے لوگوں سے کیا پوچھا؟ ویڈیو دیکھیں
شکایت کنندہ کی حیثیت
عدالت نے ریکارڈ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شکایت کنندہ بچی کی ماں ہے جس کی یہ دوسری شادی تھی اور اس نے خلع کا دعویٰ بھی دائر کر رکھا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی میں ہیٹ ویو کی پیش گوئی
پمز ہسپتال کی رپورٹ
پمز ہسپتال کی رپورٹ میں کہا گیا کہ بچی کی ماں نے ڈاکٹرز کو مبینہ زیادتی کے متعلق بتایا، تاہم متاثرہ بچی کے عدم تعاون کی وجہ سے طبی معائنہ ممکن نہیں ہو سکا۔ میڈیکو لیگل رپورٹ میں بھی کسی قسم کے زخم، رگڑ یا خون کے نشانات نہیں پائے گئے۔
تحقیقات کی صورتحال
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اس بات کا کوئی معقول جواز موجود نہیں کہ ایک حساس ادارے سے تعلق رکھنے والا پڑھا لکھا شخص اپنی 3 سالہ بچی سے زیادتی کرے۔ تفتیشی افسر نے بھی اعتراف کیا کہ ملزم کا نفسیاتی معائنہ نہیں کرایا گیا۔