میڈیا میں جو تنخواہ رپورٹ ہوئی اس میں ایک صفر زیادہ لگا ہے، چیئرمین ایس ای سی پی کا سینیٹ کمیٹی خزانہ میں تنخواہ بتانے سے گریز

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کے اجلاس میں چیئرمین ایس ای سی پی نے اپنی تنخواہ بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہاکہ میڈیا میں جو تنخواہ رپورٹ ہوئی اس میں ایک صفر زیادہ لگا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گندم کے کاشتکاروں کیلئے خوشخبری،کھاد کے بعد گندم کے تصدیق شدہ بیج کے نرخ بھی نیچے آگئے.
اجلاس کی تفصیلات
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا سلیم مانڈوی والا کی زیرصدارت اجلاس ہوا۔ اجلاس میں ایس ای سی پی کے 26 کروڑ روپے سے زیادہ کے آڈٹ اعتراض کے معاملے پر بحث ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: ہمارے والد تنہائی، اندھیرے اور ظلم کا شکار ہیں لیکن کوئی ڈیل نہیں کریں گے” عمران خان کے بیٹوں کا انٹرویو
چیئرمین ایس ای سی پی کی طرف سے وضاحت
چیئرمین ایس ای سی پی کا کہنا تھا کہ 2020 کے بعد معاملہ آیا تھا اس وقت آڈٹ اعتراض نمٹا دیا گیا۔ سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ چیئرمین ایس ای سی پی بتائیں ان کی تنخواہ کتنی ہے، بورڈ کو تنخواہ بڑھانے کا اختیار دے دیا جاتا ہے جو غلط ہے۔ چیئرمین ایس ای سی پی نے سوال پر اپنی تنخواہ بتانے سے گریز کیا۔
یہ بھی پڑھیں: کرم میں تشدد کی لہر کو روکنے والا کوئی نہیں، حکومت کہاں ہیں؟
میڈیا میں تنخواہوں کی خبریں
سینیٹر انوشہ رحمان نے کہاکہ میڈیا میں 3 ارب 77 کروڑ روپے کی خبر غلط چلائی گئی، کل رقم 37 کروڑ روپے تھی۔ اے جی پی آر سے یہ رپورٹ کیسے نکل گئی؟ ایس ای سی پی نے ان میڈیا ہاؤسز کے خلاف پیکا قانون کے تحت کارروائی کیوں نہیں کی؟
یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹرز نے بھی بحریہ ٹاؤن میں پروجیکٹ لانچ کر دیا، 1 اور 2 بیڈ اپارٹمنٹس، اتنے سستے جو آپ کو پورے بحریہ میں نہیں ملیں گے.
تنخواہوں کے معاملات پر بحث
فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ ججز فل کورٹ بٹھا کر اپنی تنخواہ نہیں بڑھا سکتے تو ریگولیٹرز کیسے بڑھا رہے ہیں۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہاکہ ایس او ای قانون میں یہ اختیار دیا گیا تھا۔ انوشہ رحمان نے کہاکہ صرف دو ریگولیٹرز بورڈ کو تنخواہ بڑھانے کا اختیار دیا گیا۔
آئندہ کے اقدامات
سینیٹر عبدالقادر نے کہاکہ چیئرمین نیپرا کی تنخواہ بھی 30 سے 32 لاکھ ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہاکہ ایس او ایز قانون کے بعد مسائل میں اضافہ ہوا۔ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں تمام ایس او ایز میں تنخواہوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔