یہ گاڑی ہفتے میں ایک دن چلتی تھی،پاکستان سے گئی گاڑی مسافروں کو”ماروی اسٹیشن“ اْتار دیتی تھی، یہاں سے ہندوستان کا شہر مونا باؤ سامنے نظر آتا ہے۔

مصنف کی تفصیل
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 235
یہ بھی پڑھیں: امریکی نائب صدر نے چینی شہریوں کو ‘گنوار’ کہہ دیا، چین کا سخت ردعمل
تاریخی پس منظر
کراچی اور سندھ کی مقامی عوام کی مسلسل گزارشات کے نتیجے میں پاکستانی حکومت نے ہندوستان سے یہ لائن ایک مرتبہ پھر کھولنے کی استدعا کی، جو منظور کر لی گئی۔ اس کے بعد دونوں ملکوں میں ایک نیا معاہدہ طے پایا اور یوں جدائی کے ٹھیک 41 برس بعد 2006ء میں اس لائن پر گاڑیوں کی آمد و رفت کو دوبارہ شروع کرنے کے احکامات جاری ہوگئے۔
یہ بھی پڑھیں: 10 ہزار کوٹہ کی تقسیم کا طریقہ کار مسترد کرتے ہیں، حکومت کو بڑے مالی سکینڈل کا سامنا کرنا پڑے گا: حج آرگنائزرز کی پریس کانفرنس
نئے انتظامات
اس معاہدے کی روشنی میں اس سروس کو بحال کرنے کے لیے دونوں ملکوں کی سرحدوں پر کچھ نئے انتظامات کیے گئے جن کی تفصیل کچھ یوں تھی:
- کھوکھرا پار، جو پہلے پاکستان کا آخری سرحدی ریلوے اسٹیشن ہوا کرتا تھا، کو ختم کر کے یہاں سے 8 کلومیٹر مزید آگے ایک نیا اسٹیشن ”زیرو پوائنٹ“ کے نام سے قائم کیا گیا۔
- بعد میں اس کا نام سندھ میں محبت کی مشہور رومانوی داستان ”عمر ماروی“ کی ہیروئین ماروی کے نام پر ”ماروی اسٹیشن“ رکھ دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: قید تنہائی کیا ہے، عمران خان کو جیل میں کوئی ساتھی دیدیں جو ان کے ساتھ سیل میں رہے؟ خواجہ آصف
شاعری کا اثر
یہ وہی ماروی ہے جس کی پردیس میں اداسی اور دکھ بارے شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ کا خوبصورت شعر لکھا گیا ہے۔ انہوں نے ماروی کے وچھوڑے کے دکھ درد کو بیان کرنے کے لیے ایک اور خوبصورت شعر بھی لکھا تھا:
آئی مند ملہار کھنبا کندیس کپڑا
(بسنت کی رْت لوٹ آئی ہے، میں بسنتی جوڑا پہنوں گی)
یہ بھی پڑھیں: اجے دیوگن کی سنگھم اگین کو دوسرے دن بھی بڑی کامیابی مل گئی
سروس کی تفصیلات
یہ گاڑی ہفتے میں صرف ایک دن چلتی تھی۔ پاکستانی گاڑی کھوکھرا پار اسٹیشن پر رکے بغیر مسافروں کو زیرو پوائنٹ یعنی ماروی اسٹیشن پر لا کر اتار دیتی تھی۔ یہاں سے ہندوستان کا شہر مونا باؤ سامنے ہی نظر آتا ہے۔ پاکستانی حکام مسافروں کی امیگریشن کرتے ہیں، مکمل ہونے کے بعد پاکستانی گاڑی مسافروں کو دوبارہ سوار کراکے سرحد عبور کرتی اور مونا باؤ کے اسٹیشن پر جا رکتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کو احتجاجی تحریک سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، رانا ثنا اللہ
معاہدے کی تبدیلی
بہرحال، ہندوستان کے دباؤ کے تحت معاہدے میں ایک بار پھر ترمیم کی گئی اور یہ طے پایا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ملک میں اپنے انجن اور بوگیاں بھیجنے کے بجائے صرف اپنے علاقے میں ہی استعمال کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب انجینئرنگ اکیڈمی کے بورڈ آف گورنرز کا اجلاس، تمام کورسز کو عالمی معیار کے ہم پلہ لانے کا فیصلہ
سفر کا طریقہ
اس نئے انتظام کے مطابق پاکستانی مسافر پاکستان ریلوے کی گاڑی ”تھر ایکسپریس“ میں سوار ہو کر ماروی اسٹیشن یعنی زیرو پوائنٹ تک آتے ہیں۔ یہاں سے امیگریشن مکمل ہونے کے بعد وہ ہندوستان ریلوے کی طرف سے وہاں پہنچی ہوئی گاڑی ”تھر لنک پسنجر“ میں سوار ہو کر مونا باؤ میں اپنا امیگریشن مکمل کروا کر جودھ پور کی طرف روانہ ہو جاتے تھے۔
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔