ہم نے چادر کے مطابق پاؤں پھیلانے کا راستہ اختیار نہ کیاتو دستیاب وسائل سے زائد رقم قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی پر خرچ ہو گی۔

مصنف کا تعارف
مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 144
متن قرارداد رانا امیر احمد خاں ایڈووکیٹ
یہ بھی پڑھیں: کیا آئی ایم ایف کی 11 نئی شرائط سے عوام کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوگا؟
جنگی بجٹ کی حقیقت
لاہور ہائی کورٹ بار کا یہ ایوان بینظیر حکومت کے قومی بجٹ سال 1996-97ء کو خسارے، گرانی اور غریب قوم کے معاشی قتل عام کا زرداری بجٹ قرار دیتے ہوئے مسترد کرتا ہے۔ حکومت نے مالیاتی ڈسپلن، منصوبہ بندی کو بہتر بنانے اور قومی آمدنی میں اضافہ کرنے کے لئے تعلیم، صنعت، تجارت اور زراعت کے شعبوں میں مثبت اور مؤثر اقدامات کرنے کی بجائے تعلیمی شعبہ کے وسائل کم کر کے مرد اول کے محکمہ خصوصی تحفظ ماحولیات کے لیے ان کو مختص کئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: راولپنڈی؛ احتجاج کے مقدمات میں ملزمان کی عدم حاضری پر عدالت شدید برہم، ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
نئے ٹیکس اور ان کا اثر
ٹیکسوں کی بنیاد وسیع کرنے کے نام پر غریب اور متوسط طبقے پر 40 ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کئے گئے ہیں۔ جاگیرداروں پر انکم ٹیکس عائد کرنے کی بجائے شہری مکانوں پر دولت ٹیکس عائد کیا گیا ہے جبکہ جاگیرداروں اور زمینداروں کی دو گاڑیوں اور ایک مکان کو دولت ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ تنخواہ دار طبقے اور غریب شہریوں کو کچھ دینے کی بجائے الٹا کرایہ مکان پر بھی انکم ٹیکس لاگو کر دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حجاب کے بغیر پرفارم کرنے پر ایرانی گلوکارہ کو گرفتار کر لیا گیا
مہنگائی کا سبب بنتے اقدامات
ٹیلی فون، سیمنٹ، کھاد، ادویات، بجلی، سوئی گیس مہنگی کر دی گئی ہیں۔ جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں 3 فیصد اضافے سے عملاً ہرچیز مہنگی ہو جائے گی۔ مختلف سبسڈیز / رعایتیں واپس لیکر زرعی اجناس اور مصنوعات کو مہنگا کر دیا گیا ہے جس سے عالمی برآمدی مارکیٹ میں ہماری مہنگی مصنوعات کے لئے مقابلہ کرنا مشکل ہو گا۔ بعض اشیاء پر درآمدی ڈیوٹیوں کی شرح کم کی گئی ہے جس سے ہماری مقامی صنعت جو پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے مزید مصائب سے دوچار ہو گی۔
یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کے وفد نے انسانی سمگلنگ، سائبر کرائم اور منشیات کی روک تھام کیلئے تعاون کی پیشکش کر دی
اقتصادی آزادی کی چالیں
قومی معیشت کو آئی ایم ایف کی غلامی اور قرضوں کی لعنت میں جکڑ دیا گیا ہے۔ قومی بجٹ کا ایک تہائی حصہ 1 کھرب 86 کروڑ روپیہ صرف قرضوں اور سود کی ادائیگی میں چلا جائے گا جبکہ دفاع کے لئے مختص رقم سود کی ادائیگی کی رقم سے 45 ارب روپے کم ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پیٹرینز ایبک پولو کپ 2024ء کے تیسرے روز دو اہم مقابلے
سیاستدانوں کی مراعات کا بڑھتا ہوا بوجھ
اس بجٹ کا سب سے زیادہ مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ صدر مملکت، وزیر اعظم اور ارکان صوبائی و قومی اسمبلی، وزراء اور گورنروں کی مراعات میں کئی گنا اضافہ کر دیا گیا ہے۔
حکومتی اور انتظامیہ کے غیر ترقیاتی اخراجات میں مجموعی طور پر 4 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔
وکلاء کے حقوق اور ٹیکس کے اثرات
وکلاء کی فیسوں پر 10 فیصد کی شرح سے ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے اور ان پر 3 ہزار، 6 ہزار اور 12 ہزار روپے تک فکسڈ انکم ٹیکس لگانے کا اقدام کیا گیا ہے۔ یہ 80 فیصد وکلاء کے لئے ظلم کے مترادف ہے جو بمشکل گزر اوقات کرتے ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔