پیچھے رہ جانے والی بستیوں میں 12 سال گزارنے کے بعد بہت نقصان، توند نکل آئی، انگریزی بولنا بھول گیا، پنجابی زبان پر مہارت بڑھ گئی تھی

مصنف
شہزاد احمد حمید
یہ بھی پڑھیں: بھارتی کرکٹر پر خاتون سے زیادتی کے الزامات کے باعث پابندی عائد
قسط
276
یہ بھی پڑھیں: معروف ٹک ٹاکر سجل ملک کا اداکار عمران اشرف سے کیا تعلق ہے؟ حیران کن انکشاف
میرے نقصان
لالہ موسیٰ اور کھاریاں لاہور کے مقابلے پس ماندہ بستیوں میں زندگی کے 12 سال دے کر میں نے اپنا بھی بہت نقصان کیا تھا۔ میری توند نکل آئی تھی، انگریزی بولنا میں ہی بھول گیا تھا، پنجابی زبان پر میری دسترس بڑھ گئی تھی، سوٹ ٹائی لگائے برسوں بیت گئے تھے، پینٹ شرٹ کی جگہ شلوار قمیض نے لے لی تھی البتہ یہاں گزارے 12 سال میں ہر سال مری جاتے ہوئے عزیز، رشتہ دار اور دوست میرے پاس رک کر آگے جاتے تھے۔ میں ان کی میزبانی کرتے تنگ آ چکا تھا کہ ان کی جیسی بھی خاطر مدارت کرو جاتے، ان کی باتیں بھی سنو، “کہ مہمان نوازی میں کچھ کسر رہ ہی گئی تھی۔” میری اب اس میزبانی سے جان چھوٹنے والی تھی۔ ان 12 برسوں میں میرے والدین دو بار ہی میرے پاس رہنے آئے تھے۔ پہلی بار جب عمر صاحب پانچ چھ ماہ کا تھا اور دوسری بار کھاریاں جب عمر چار اور احمد 3 برس کا تھا، البتہ والد تب بھی آئے تھے جب عمر صاحب کا اپنڈیکس کا آپریشن ہوا تھا۔ میرے لاہور لوٹنے کی سب سے زیادہ خوشی والدین کو ہی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: کیا واقعی ایف بی آئی کے سابق ڈائریکٹر نے ٹرمپ کے قتل کی کال دی؟ 8647 کے میسج کا کیا مطلب ہے؟
گھریلو سامان کی منتقلی
کھاریاں سے میرا گھریلو سامان آبائی گھر ماڈل ٹاؤن منتقل ہو چکا تھا۔ عمر اور احمد کا نئے سکولوں میں داخلہ بھی ہو گیا تھا۔ عمر ما شاء اللہ اب چھٹی جماعت میں تھا جبکہ احمد پانچویں جماعت میں۔ اباجی انہیں اپنی گاڑی پر سکول چھوڑتے اور وہی لاتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد میں نے دونوں کو سائیکل لے دی تو ابا جی کی سخت ڈیوٹی ختم ہو گئی تھی۔ بچے شوق سے سائیکل چلاتے سکول جاتے تھے۔ ہاں یہاں ایک نئی بات بھی شروع ہو گئی تھی۔ درست اندازہ لگایا آپ نے، “ساس بہو کی نوک جھونک۔” یہ انسانی تاریخ کی سب سے قدیم نوک جھونک اور زندگی کی تلخ حقیقت ہے۔ شکر کہ یہ نوک جھونک ہی رہتی کبھی کوئی بڑی بد مزگی نہیں ہوئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: میک اپ پراڈکٹس چکھنے کے حوالے سے مشہور بیوٹی انفلوئنسر اچانک انتقال کرگئیں
پہلی بار ناکامی
یکم اکتوبر 99۔ نئے دفتر میں میرا پہلا نیا دن تھا۔ عجیب دفتر تھا۔ نہ پانی نہ بجلی۔ یہاں میرا پیشرو ملک طارق گریڈ 11 کے پرا جیکٹ اسسٹنٹ گریڈ 17 کی پوسٹ پر اپنے والد کی وجہ سے براجمان تھا۔ اُس کا والد ملک عبدالمالک جہاں دیدہ انسان تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کی ترقی، بہتر پوسٹنگ کے لئے وہ کچھ کیا جو کم باپ ہی کر سکتے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بھی میری ککے زئی برادری سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ خیر میں اے سی فیروز والا فواد ربانی کو جوائنگ دے کر چارج لینے پہنچا تو دو دنوں باپ بیٹا موجود تھے۔ مسکرا کر ملے لیکن ان کے چہرے کے تاثرات بتا دے رہے تھے کہ انہیں میرے آنے کی خوشی نہیں۔ مجھے یہاں بھی پرانا مکالمہ ہی سننے کو ملا؛ “جناب دو دن دیں۔ ہمارے بات ہو گئی ہے کل آپ کے آڈرز کینسل ہو جائیں گے۔” میں گھر چلا آیا۔ 3 دن کے بعد دفتر گیا تو ملک طارق نے سیٹ چھوڑ دی۔ اس کے والد مجھے تپاک سے ملے اور بولے؛ “بیٹا! پہلی بار ناکام ہوا ہوں۔ آپ کو مبارک ہو۔” جب انہیں پتہ چلا کہ میں بھی ککے زئی ہوں تو ان کی چاہت میرے لئے کچھ بڑھ گئی تھی۔ اس کے بعد سے وہ ہمیشہ ہی مجھے بڑی عزت و احترام سے ملتے اور بچوں کی طرح ہی سمجھتے تھے۔ کئی برس پہلے ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ آمین۔
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔