اگر سیاسی لوگ قابل ہوتے تو مخالف کو جینے کا حق بھی نہ دیتے، آج بھی سب کچھ ماضی جیسا ہی ہے، دہائیوں قبل کے اخبار اٹھا کر دیکھ لیں احساس ہوجائیگا۔

مصنف کی تفصیلات
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 277
یہ بھی پڑھیں: بھارت میں پولیس اور باغیوں کے درمیان جھڑپ، 11 افراد ہلاک
دفتری عملہ
چارج لینے کے بعد دفتری عملہ سے ملاقات ہوئی۔ باریش محمد اقبال سب انجینئر؛ شریف آدمی تھا۔ میرے ہاتھوں ہی 2018ء میں ریٹائر ہوا اور پھر فوت ہوگیا۔ نیک انسان تھا۔
محمد اشرف بٹ اکاؤنٹ کلیر کام کرنے والا، مخلص، شریف اور ہنس مکھ انسان تھا۔ یہ بھی میرے ہاتھوں ہی اکتوبر 2019ء میں ریٹائر ہوگیا۔ میرے فیملی ممبرز کی طرح ہے۔ اس سے ملاقات رہتی ہے۔
چاچا بشیر نائب قاصد تھا؛ تابعدار اور محنتی۔ ریٹائرمنٹ سے کچھ ماہ پہلے انتقال کر گیا۔ اللہ اسے جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین۔
عبدالعزیز؛ یہ میرے گھر ماڈل ٹاؤن کے قریب اعوان ٹاؤن میں رہتا تھا۔ مخلص، با اعتماد اور سمجھ دار تھا۔ مجھے بہت عزیز تھا اور آج بھی ہے۔ یہ بھی میرے گھر کے افراد کی طرح ہے، اس سے بھی ہفتہ میں ایک بار ملاقات ہو جاتی ہے۔ یہ اب ریٹائر ہو چکا ہے۔
محمد حسین بھٹی؛ سمجھ دار اور پرانا سیکرٹری تھا۔ یہ بھی ریٹائر ہو چکا ہے۔ اس سے بھی کبھی کبھار ملاقات ہو جاتی ہے۔
محمد افتخار؛ یہ بہت تیز مگر بڑا سمجھ دار انسان تھا۔ وفات پا چکا ہے، اللہ مغفرت کرے۔ آمین۔
سعادت اللہ نیازی؛ اسے دیکھ کر بات یاد آتی تھی "کہ اللہ اپنے بندوں پر کرم کرتا ہے۔" یہ بھی ریٹائر ہو چکا ہے۔
مقبول احمد؛ دبلا پتلا تابعدار اور کام کی اچھی سوجھ بوجھ رکھتا تھا۔ سعود خاں بھی سیکرٹری یونین کونسل تھا، گو اس کا تعلق مرکز نارنگ منڈی سے تھا، لیکن اس سے جب بھی ملاقات ہوتی یہ نہایت عزت دیتا۔ کسی بھی کام کی ذمہ داری لگاؤ خوش اسلوبی سے پوری کرتا۔
بعد میں جب میں ڈائریکٹر لاہور تھا تو اس سے قربت گھر کے فرد جیسی ہو گئی۔ آج بھی میرے گھر میں چاول سعود خاں ہی بجھواتا ہے اور یاسین (اکاؤنٹنٹ) پہنچتا ہے۔ یہ ان دونوں کی سعادت مندی ہے۔ اللہ ان سب کو اپنی امان میں رکھے۔ آمین۔
حلقہ بندی
دفتر میں کبھی اپنی کار اور کبھی بس پر جاتا تھا۔ عزیز اکثر میرا ہمسفر ہوتا اور زیادہ تر کرایہ وہی ادا کرتا۔ یہاں کی پہلی ہی مصروفیت بڑی سخت اور مشکل تھی۔۔۔ جنرل پرویز مشرف صاحب کے متعارف کرائے گئے بلدیاتی نظام کے الیکشن کی نئی حلقہ بندی۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہوتا تھا۔
حکومتی ہدایات مدنظر رکھنی پڑتی تھیں، رولز کی پیروی کرنا ہوتی جبکہ دوسری طرف جانب سیاست کے میدان کا ہر بااثر کھلاڑی اور مہرہ سفارش، دھونس دھمکی اور لالچ سے اپنے مطلب کا حلقہ بنوانے کی سعی کرتا تھا، ایسا حلقہ جہاں سے اس کی جیت یقینی ہو۔ سیاسی لوگوں کے بس میں ہو تو وہ اپنے مخالف کو جینے کا حق بھی نہ دیں۔
آج بھی سب کچھ ماضی جیسا ہی ہے۔ عجیب اتفاق نہیں کہ آپ دھائیوں قبل کے اخبار اٹھا کر دیکھ لیں، سبھی کی شہ سرخیاں پڑھ کر احساس ہوگا کہ یہ ماضی کی نہیں آج کی خبر ہے۔ بدقسمتی ہے ہماری۔
اچھا افسر کوشش کرتا تھا کہ قوائد و ضوابط کے مطابق یہ ذمہ داری انجام دے، حلقہ بندی میں عام آدمی کی سہولت کو مدنظر رکھے اور اگر موقع ملے تو پرانی حلقہ بندی میں ہونے والی کسی کمی کوتاہی کو بھی درست کر دے۔
حلقہ بندی کے دنوں میں ہر طرف سے دباؤ ہی دباؤ ہوتا۔ صیغہ راز میں رکھ کر حلقہ بندی کا کام با آسانی اور تندہی سے انجام دیا جا سکتا تھا۔ بااعتماد اور سمجھ دار عمال کی ٹیم کامیابی کی کنجی ہوتی۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔