ہندوستانی علاقے میں ”تھر لنک پسنجر“ جودھ پور کے قریبی قصبے ”بھگت کی کوٹھی“ سے چلتی اور راجستھان کے خوفناک صحراؤں سے مونا باؤ پہنچتی

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 236
تھر لنک پسنجر کی داستان
ہندوستانی علاقے میں یہ گاڑی یعنی "تھر لنک پسنجر" جودھ پور کے قریبی قصبے "بھگت کی کوٹھی" نامی اسٹیشن سے چلتی ہے اور راجستھان کے خوفناک اور خشک صحراؤں میں سے پانچ گھنٹے کا طویل سفر کرکے مونا باؤ پہنچتی ہے۔
بندش کی وجہ اور اثرات
9 اگست 2019ء کو واہگہ کی سمجھوتہ ایکسپریس کے ساتھ ساتھ "تھر ایکسپریس" کو بھی بند کر دیا گیا۔ اس بار اس کی بندش کو لوگوں نے زیادہ محسوس بھی نہیں کیا تھا کیونکہ 70 سال گزر جانے کے بعد پیچھے ہندوستان میں رہنے والے رشتے داروں کے آپس کے روابط اب برائے نام ہی رہ گئے تھے۔
پچھلے وقتوں کے بڑے بزرگ ایک ایک کرکے رخصت ہوئے اور جو رہ بھی گئے تھے انھوں نے اب ایک دوسرے کے بغیر بھی جینا سیکھ لیا تھا۔ نئی آنے والی نسلیں ایک دوسرے کو جانتی تک بھی نہیں تھیں، وہ اب اپنے پاکستان چلے جانے یا ہندوستان میں رہ جانے والے عزیزوں اور رشتے داروں سے ملنے کے بارے میں زیادہ پرجوش بھی نہ تھے اور نہ ہی ان میں محبت کا وہ جذبہ باقی رہا تھا جو بچھڑے ہوؤں کو ایک دوسرے کے قریب لاتا تھا۔
سندھ کے مقامی ہندو خاندانوں کی مشکلات
دوسری طرف سندھ میں مقیم مقامی ہندو خاندانوں کو سرحد پر سخت نگرانی اور پابندیوں کے باعث ہندوستان میں اپنی رشتے داریاں نبھانا مشکل ہو رہا تھا، اور وہ بھی اب آپس میں کم کم ہی ملتے ہیں۔ ان کا ہندوستان میں واقع اپنے مذہبی مقامات پر آنا جانا بھی بہت کم ہوگیا تھا۔
ہندوستان میں بھی ان کو کچھ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ پچھلے دنوں کچھ پاکستانی ہندو ترک وطن کر کے وہاں گئے تھے اور پھر وہاں اپنے ساتھ نا روا سلوک کی بناء پر اپنے وطن لوٹ آئے۔
مسافروں کی کمی
ویسے بھی بندش سے ذرا پہلے اس گاڑی میں برائے نام ہی مسافر ہوا کرتے تھے، ان میں سے کچھ تو اپنے رشتے داروں سے ملنے ہندوستان جاتے تھے اور کچھ سندھ کی ہندو برادری کے لوگ سرحد کے اس پار اپنے مقدس مقامات کی زیارت کرنے یا مذہبی تہواروں میں شرکت کرنے کے لیے جانا ضروری سمجھتے تھے۔
ہندوستان کی طرف سے آنے والی ان کی گاڑی "تھر لنک پیسنجر" میں بھی سوائے ان کی بارڈر سیکیورٹی فورس کے اہلکاروں اور مقامی مسافروں کے، خال خال ہی کوئی سیاح نظر آتا ہے جو اپنے ٹریول وی لاگ کے ذریعے اپنے ناظرین کو ہندوستان اور پاکستان کی سرحد دکھاتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں، اس گاڑی کو چلا کر اب محض خانہ پُری ہی کی جاتی تھی۔ مسافروں کی تعداد اتنی کم تھی کہ اس کی جگہ بس بھی چلائی جا سکتی تھی، جس طرح لاہور سے دہلی بسیں چلتی ہیں، جو فی الحال تو بند ہیں۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔