ملک میں آج اگر آئینی حکومت نہیں اور میں بطور جج کچھ نہیں کر رہا تو اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہا ہوں، جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ کے دوبارہ حلف کی اہمیت
کراچی(ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ ملک میں آج اگر آئینی حکومت نہیں اور میں بطور جج کچھ نہیں کر رہا تو اپنے حلف کی خلاف ورزی کررہا ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: ساہیوال: ہیلمٹ نہ پہننے پر روکی گئی موٹر سائیکل سوار خاتون دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئی
حلف کی پاسداری
کراچی میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ان کا حلف یہ ہے کہ بغیر کسی خوف کے قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ آئین کا دفاع کرنا ہے۔ میں اس حلف کا پابند ہوں، اور اللہ کا نام لے کر لیا گیا یہ حلف مجھے جوابدہ بناتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شادی کا جھانسہ دیکر میٹرک کی طالبہ کو متعدد بار جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والا پرنسپل گرفتار
معاشرے کی سچائی
سینئر جج نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ملک میں آج اگر آئینی حکومت نہیں ہے اور میں بطور جج کچھ نہیں کر رہا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہا ہوں۔ انہوں نے برطانیہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں صدیوں سے کوئی تحریری آئین نہیں، لیکن قانون کی بالادستی قائم ہے۔ بدقسمتی سے ہماری تاریخ سکولوں میں متضاد طریقے سے پڑھائی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چترال؛ شادی کے دوسرے دن نوجوان نے خود کشی کرلی
پاکستان کا آئین اور بنی نوع انسان
جسٹس اطہر من اللہ نے بتایا کہ پاکستان کے دو حصوں کے لیے ایک آئین بن رہا تھا، جس کے لیے اسمبلی منتخب کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جب آئین تیار ہوا تو اسمبلی کو تحلیل کر کے پاکستان کی تقسیم کی بنیاد رکھی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: کسی بے گناہ کے خلاف کارروائی ہوگی اور نہ ہی مدرسوں کو بند کیا جائے گا، وزیر داخلہ محسن نقوی کی علامہ اویس شاہ نورانی کو یقین دہانی
بنگالی عوام کی خواہش
انہوں نے مزید کہا کہ بنگالی عوام ہم سے الگ نہیں ہونا چاہتے تھے، مگر حکومتی رویے نے انہیں یہ احساس دلایا کہ وہ بار-بوجھ ہیں۔ جسٹس منیر کی کتاب بھی اس حقیقت کو بیان کرتی ہے۔ انہوں نے جنرل ضیا الحق کے دور کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کے ججز نے خود کو دباؤ میں آنے دیا اور سچائی کا سامنا کرنے سے کترائے۔
عوام کی حکمرانی کا حق
آئین کی بنیاد یہ ہے کہ حق حکمرانی عوام کا ہے۔ اہم شرط یہ ہے کہ کوئی ادارہ سیاسی انجینئرنگ نہیں کرے۔ عوامی نمائندے صاف اور شفاف طریقے سے منتخب ہوں۔ مگر افسوس یہ ہے کہ یہ ہماری صرف ایک خواب ہے، کیونکہ جہاں بھی آمریت ہوتی ہے، وہاں انتخابات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔








