کہاں کہاں عزت کا سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 286
دکھ وریام ہوندا اے صاحب
جیتا جاگتے انسان کو قتل کر دینا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ میں نے ایک بار ایک قاتل سے پوچھا؛ ”کس طرح تم نے زندہ انسان کو مار دیا تھا؟ مرنے سے پہلے اس نے جو ترلے منتیں کی تھیں جو اللہ رسول ﷺ کے واسطے دئیے ہوں گے تمھیں سنائی نہیں دئیے تھے کیا؟“ وہ معنی خیز ہنسی ہنسا اور کہا؛ ”باؤ جی! دکھ وریام ہوندا اے۔“ اس وقت تو مجھے اس کا مطلب سمجھ نہ آیا۔ کسی سیانے سے پوچھا تو اس نے سمجھایا؛ میاں! دکھ کا مطلب وہی جانتا ہے جس نے دکھ سہا ہو۔ آگ کی تپش وہی جانتا ہے جس تن لاگی ہو۔“ بات درست ہے۔
ایک قاتل کی کہانی
ایک بار ایک قاتل کی بہن کا طلاق کا مقدمہ میری ثالثی کونسل میں پیش ہوا۔ میں نے اس خاتون سے پوچھا؛ ”علاقے اور پولیس والے بھی تم سے ڈرتے ہوں گے کہ تمھارے بھائی ظالم اور قاتل ہیں۔“ اس ان پڑھ مٹیار کے جواب نے مجھے ہلا کر رکھ دیا تھا؛ ”بولی؛ ”صاحب! اے غیرت دے نام تے قتل کریندے ایں، پر جاندے نئیں گھر الیاں تے وت کی گزر دی اے۔ توسی سوچ وی نیں سکدے انہوں دی عورتوں نوں کی قیمت چکانی پیندی اے۔“اس نے مجھے بتایا؛ ”کہاں کہاں عزت کا سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ پولیس سے، عدالت سے، جیل اہل کار سے۔ صاحب سارے بھوکے بھیڑیئے ہیں۔ عورت دیکھ کر پاگل ہو جاتے ہیں وہ بھی قاتل کی عورت اور مجھ جیسی خوبصورت بھی ہو۔ خاوند نے بھی اسی لئے طلاق دی کہ تم بھائیوں کو بچانے جگہ جگہ جاتی ہو۔ کون جاتا۔ میں نے خاوند سے کہا:”تم آ جاؤ۔“ کہنے لگا؛ ”میں نوکری نہیں چھوڑ سکتا۔“ اب میرے باپ کی ضمانت ہو گئی اور مجھے طلاق جبکہ بھائی جیل ہی ہیں۔“ ایسی ہی کہانی مرالہ کی رہنے والی ثمینہ کی تھی۔ میں ان کی باتیں سن کے دیر تک سوچتا رہا یہ غیرت کے نام قتل کرکے اپنے گھر کی عورتوں کو کس عذاب میں جھونک دیتے ہیں اس کا تصور بھی نہیں انہیں؟ ناقابل یقین۔
یادگار وقت
حلف برداری مکمل ہو چکی تھی۔ دفتر واپس لوٹے۔ جج صاحب ٹرانسفر ہو گئے۔ میں بھی awaiting posting ہوگیا۔ بعد میں وہ سروس ٹرائبیونل کے جج بن گئے پھر ان سے کبھی ملاقات نہ ہوئی۔ سچی بات ہے ان کے ساتھ کام کرنے کا بہت مزا آیا۔ یادگار وقت تھا۔
شرق پور کا بوجھ
میں ہفتے میں 2دن شرق پور جاتا۔ یہاں کے گلاب جامن اور حضرت میاں شیر محمد شرقپوریؒ کا مزار مشہور ہیں۔ اشرف بھی میرے ساتھ ہوتا تھا۔ ایک روز حسب معمول طلاق کیسز سن رہا تھا۔ خلع کا ایک مقدمہ تھا۔ خلع کے یک طرفہ فیصلوں کی طرح یہ بھی یک طرفہ فیصلہ تھا۔ مثل پیش ہوئی تو ساتھ ہی 2خواتین اور ایک بچی کمرے میں داخل ہوئے۔ ان میں سے ایک عورت پر میری نظر پڑی تو جیسے کسی غیر طاقت نے مجھے خود بخود ہی کرسی سے کھڑا کر دیا۔ حسن کی دلفریب مورتی میرے سامنے تھی۔ نازک، بھر پور جوان، الہڑ مٹیار۔ میں قسم دے سکتا ہوں اس وقت تک میں نے اس سے خوبصورت عورت نہ دیکھی تھی۔
نتیجہ
لمبا قد، نازک جسم اور لشکارے مارتا حسن۔ اس کے ساتھ آئی عورت جسے میں اس کی نوکرانی سمجھ رہا تھا اس کی ممانی تھی۔ وہ خلع کا مؤثر سرٹیفیکیٹ فوری چاہتی تھی لیکن قانون میں اس کی گنجائش نہ تھی۔ میں نے اسے پوچھا تھا ”خلع کیوں لی؟“ کہنے لگی؛ صاحب! عاشق واسطے۔“ بہرحال میں اس حسن کی مورت آج تک نہیں بھول سکا۔ خلع مؤثر ہونے کے اگلے ہی دن وہ گھر سے اپنے عاشق کے ساتھ دوڑ گئی تھی۔ جس کے ساتھ وہ بھاگی خوش قسمت تھا اور جس سے خلع لی بد قسمت۔
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔