لاہور بار اور ہائیکورٹ بار میں سب سے بڑا گروپ ہونے کے باوجود مسلم لیگی وکلاء مختلف دھڑوں میں بٹ جانے کے باعث 1996ء کے انتخابات ہار گئے تھے
پروکیورمنٹ اور حکومت کی ذمہ داری
مصنف: ران امیر احمد خاں
قسط: 154
ہم حکومت سے گزارش کرتے ہیں کہ اپنی کرسی اور اقتدار کو بچانے کے لئے ملک و قوم کے استحکام کو خطرے میں نہ ڈالیں۔ سیاسی انتقام اور دارالحکومت کو آئی ایم ایف اور امریکہ کے حوالے کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی کریں۔ عوامی مسائل کی حقیقی حل کے لئے ایکشن لیں، تاکہ پاکستان کے جمہوری مستقبل کو محفوظ رکھا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم شہباز شریف سعودی عرب کا ایک اور کامیاب دورہ مکمل کرکے وطن واپس پہنچ گئے۔
لاہور بار ایسوسی ایشن کا اجلاس
لاہور بار ایسوسی ایشن کا اجلا سعام جماعت اسلامی کے کارکن حافظ محمد یوسف کی پولیس کے ہاتھوں هلاکت پر اپنے شدید غم و غصے کا اظہار کرتا ہے۔ اعجاز الحق، لیاقت بلوچ اور دیگر سیاسی کارکنوں کی غیر قانونی گرفتاری اور ان پر ہونے والے تشدد کی سخت مذمت کرتا ہے اور فوری طور پر تمام سیاسی قائدین اور کارکنوں کی بلامشروط رہائی کا مطالبہ کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یہ امر المیہ سے کم نہیں کہ 1970ء کے الیکشن میں شکست کے بعد پاکستان کونسل مسلم لیگ کے سرکردہ رہنماؤں نے مرد میدان ہونے کا ثبوت نہیں دیا
مسلم لیگ وکلاء کی مہم
مسلم لیگی وکلاء کے مختلف دھڑوں میں اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کی کوششیں
10 ستمبر 1996ء کو مسلم لیگ لائرز فورم پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات رانامیر احمد خاں ایڈووکیٹ نے مسلم لیگ وکلاء کے مختلف دھڑوں میں اتحاد، یکجہتی اور جمہوریت کی بحالی کے لئے سرگرم عمل ہو گئے ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے مسلم لیگی وکلاء کے سرکردہ افراد سے ملاقاتیں کی ہیں اور ایک عرضداشت مسلم لیگ کے صدر میاں محمد نواز شریف کو بھجوائی ہے، جس میں درخواست کی گئی ہے کہ مسلم لیگ لائرز فورم پنجاب اور لاہور کے عہدیداران کی نامزدگی کا عمل ختم کیا جائے اور انتخابی جمہوری طریقہ اپنایا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: آئینی ترمیم کے لئے اپوزیشن کی نااہلی سمجھ سے بالاتر ہے، 26ویں کی طرح 27ویں ترمیم بھی کی جا سکتی ہے، عثمان مجیب شامی
مسلم لیگی وکلاء کی چالیں
صدر پاکستان مسلم لیگ کے نام بھیجی گئی اس عرضداشت پر 331 وکلاء کے دستخط موجود ہیں۔ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ لاہور بار اور ہائیکورٹ بار میں سب سے بڑا گروپ ہونے کے باوجود مسلم لیگی وکلاء فرقوں میں بٹ جانے کی وجہ سے 1996ء کے بار انتخابات میں ناکام ہوئے تھے۔ اگر فوری طور پر عہدیداران کے انتخاب کا راستہ نہ اپنایا گیا تو آئندہ انتخابات میں انہیں ناکامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں: اگر ملاقاتیں پہلے ہو چکی ہوتیں تو اتنی تشویش نہیں ہوتی، بیرسٹر گوہر
مشہور وکلاء کے دستخط
اس عرضداشت پر دستخط کرنے والوں میں سابق صدور ہائی کورٹ بار، لاہور بار و دیگر مشہور وکلاء شامل ہیں، جیسے کہ محمد سعید انصاری، جہانگیر اے جھوجھہ، خواجہ محمد شریف، نثار احمد بٹ، اور بہت سے دیگر۔ یہ عرضداشت سنیٹر ذکی الدین پال اور شیخ محمد اکرم کی سرکردگی میں نومبر 1996ء میں مسلم لیگی وکلاء کے عہدیداران کے انتخابات کے لئے تجاویز بھی پیش کرتی ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








