ملتان، رحیم یار خان، راجن پور اور وہاڑی کے سینکڑوں دیہات پانی میں ڈوب گئے

پنجاب میں سیلابی صورتحال
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن) پنجاب میں سیلابی صورتحال برقرار ہے جس کی وجہ سے شجاع آباد، رحیم یار خان، احمد پور شرقیہ، راجن پور اور وہاڑی کے مزید سینکڑوں دیہات پانی میں ڈوب گئے۔
یہ بھی پڑھیں: یقین سے خریداری، مایوسی سے واپسی: پاکستانی صارفین ٹیمو سے کیا سیکھ رہے ہیں؟
دریائے چناب کی حالت
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق فیڈرل فلڈ کمیشن کے مطابق دریائے چناب میں پنجند بیراج کے مقام پر بہت اونچے درجے کا سیلاب ہے جبکہ اگلے 24 سے 48 گھنٹوں میں گڈو بیراج میں بہت اونچے درجے کے سیلاب کی پیشگوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسٹیٹ بینک نئی مالیاتی پالیسی کا اعلان کل کرے گا
متاثرہ افراد اور نقصانات
واضح رہے کہ پنجاب میں سیلاب سے اموات سو سے تجاوز کر چکی ہیں، 5 ہزار کے قریب دیہات اور 45 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں جبکہ لاکھوں ایکڑ پر اجناس کی کھڑی فصلیں بھی تباہ ہو چکی ہیں۔
مظفر گڑھ میں متاثرہ دیہات
ڈپٹی کمشنر مظفر گڑھ عثمان طاہر نے بتایا کہ چناب کے سیلاب سے ضلع مظفرگڑھ کے 2 لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے، ضلع کا 2 لاکھ 9 ہزار ایکڑ زرعی رقبہ زیرآب آیا اور فصلیں تباہ ہوئیں۔
تحصیل مظفرگڑھ کے 105، تحصیل علی پور کے 26 اور تحصیل جتوئی کے 16 موضع جات متاثر ہوئے، ضلع بھر میں ریسکیو اور ریلیف کی سرگرمیوں کے لیے 221 کشتیاں کام کررہی ہیں۔
کشتی الٹنے کا واقعہ
شجاع آباد کے علاقے جلالپور کھاکھی میں کشتی الٹ گئی، کشتی پر 40 کے قریب افراد سوار تھے۔
ریسکیو 1122 حکام نے بتایا ہے کہ تمام افراد کو بحفاظت ریسکیو کر لیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یاد رکھیے اگر مگر، چاہیے اور کاش یہ سب “موجود لمحے” کو نظرانداز کرنے کے بہانے ہیں، مستقبل میں زندگی نیا رخ اختیار کرے گی.
ملتان کی صورتحال
ملتان کو دریائے چناب سے سیلابی صورتحال کا سامنا ہے، ہیڈ محمد والا اور شیر شاہ کی درجنوں بستیاں ابھی تک گہرے پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں، شجاع آباد اور جلالپور پیروالا میں لاکھوں لوگ بے گھر ہیں۔
ادھر چاچڑاں میں سیکڑوں مکانات دریا برد ہوگئے، ہزاروں ایکڑ فصلیں تباہ اور رابطہ سڑکیں ڈوب گئیں۔
صادق آباد میں نبی شاہ کے مقام پر زمیندارہ بند ٹوٹ گیا جس کی وجہ سے پانی آبادی میں داخل ہوگیا۔
یہ بھی پڑھیں: روس کا جوہری اڈا جہاں فوجیوں کے والدین کو داخلے کے لیے تین ماہ پہلے درخواست دینا لازمی ہے
جلالپور پیروالا اور شجاع آباد میں صورت حال
اس کے علاوہ شجاع آباد میں بھی سیلابی ریلا تباہی مچا رہا ہے، متاثرین کی مشکلات بڑھنے لگيں، بستی دھوندو کے بند میں شگاف بڑھ کر دو سوچالیس فٹ ہو گیا۔
جلال پور پیروالا میں بھی سیلابی صورتحال برقرار ہے، شیر شاہ میں کے متعدد علاقے بھی زیر آب آگئے، اوچ شریف کے دریائی علاقوں میں سیلابی صورتحال ہے اور زیر آب بستیوں میں رات گئے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔
راجن پور میں کچے کے علاقے میں سیلاب کے باعث ہزاروں افراد گھر چھوڑنے پر مجبور ہیں، روجھان، بنگلہ اچھا، سونمیانی اور کوٹ مٹھن میں کچے کے علاقے متاثر ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایشیا کپ شیڈول کا اعلان ہو گیا پاکستان اور بھارت کے درمیان مقابلہ 14 ستمبر کو ہوگا
ریسکیو اور امدادی کاروائیاں
انتظامیہ کے مطابق ایک لاکھ 10 ہزار افراد اور ایک لاکھ سے زائد مویشیوں کو منتقل کیا جا چکا ہے، متاثرہ علاقوں میں فلڈ ریلیف کیمپس بھی قائم کردیے گئے ہیں، ڈرونز کی مدد سے سیلاب میں پھنسے افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔
دوسری جانب وہاڑی میں بھی 100 سے زائد دیہی علاقے سیلاب میں گھر گئے، 76 ہزار ایکڑ سے زائد رقبے پر فصلیں زیر آب آگئیں۔
رحیم یار خان میں دریائے سندھ پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے، متعدد دیہات اور بستیاں زیر آب آگئیں، لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے۔
یہ بھی پڑھیں: اسپیس ایکس نے خلاء میں مزید 28 انٹرنیٹ سیٹلائٹس روانہ کردیں
انتظامی تبدیلیاں
علی پور میں پنجند پر پانی کی آمد و اخراج 4 لاکھ 22 ہزار 5 سو 22 کیوسک ہے جو پہلے سے کم ہے، ماہرین کے مطابق پانی کی سطح میں یہ کمی عارضی ہو سکتی ہے however، مسلسل نگرانی ضروری ہے تاکہ سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بروقت اقدامات کیے جا سکیں۔
علی پور کے اسسٹنٹ کمشنر علی پور فیض فرید بھٹہ کو عہدے سے ہٹادیا گیا، ان کی جگہ اسسٹنٹ کمشنر چوبارہ نعمان محمود لگا دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: کینالز منصوبے میں سیلاب کا پانی استعمال ہوگا، اس پر سندھ ہمیں ڈکٹیشن نہیں دے سکتا: عظمیٰ بخاری
علی پور اور سیت پور میں تباہی
علی پور کے سیت پور روڈ پر سیلابی پانی سے آمد و رفت منقطع ہو چکی ہے، کچی لعل، کندرالہ، مڑی، ماڑیاں کے علاقے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
لتی ماڑی چوکی گبول، باز والہ، گھلواں دوم بھی بری طرح متاثر ہیں، مکانات، دیواریں منہدم ہوگئی ہیں، ہزاروں ایکڑ رقبہ پر کھڑی فصلیں ڈوب گئیں، بڑی تعداد میں سیلاب متاثرین چوریوں کے خوف سے مال مویشی کے ہمراہ گھروں میں موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: عظمیٰ بخاری نے کوہستان کرپشن سکینڈل کو خیبر پختونخوا حکومت کے لیے ’’کلنک کا ٹیکہ‘‘ قرار دیدیا
بہاولنگر میں صورت حال
بہاولنگر میں ہیڈ سلیمانکی ہیڈ ورکس پر پانی کی آمد 78 ہزار 575 کیوسک اور اخراج 69 ہزار 19 کیوسک ہے۔
بہاولنگر کے موضع توگیرہ، جھنڈیکا اور مومیکا روڈ میں سیلابی پانی سے سڑکیں پانی میں ڈوب جانے سے راستے تاحال منقطع ہیں جس سے لوگوں کو نقل و حمل میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ حکومت کے بیانات پرعظمیٰ بخاری کا رد عمل بھی آ گیا
ریلیف اور ریسکیو کارروائیاں
ملک صہیب احمد بھرتھ جلال پور پیرو والا، لیاقت چوک، علی پور اور سیت پور میں ریلیف اینڈ ریسکیو آپریشنز کی نگرانی کر رہے ہیں، سیلاب متاثرین کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کے آپریشن کا جائزہ لیا، متاثرین میں ٹینٹ اور راشن تقسیم کیا۔
صوبائی وزیر نے علی پور اور سیت پور کے علاقوں کا تفصیلی دورہ کیا، کشتی میں سوار ہوکر سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں گئے، لوگوں کو ریسکیو کیا، لوگوں کو ریسکیو کرنے میں استعمال ہونے والے ڈرون کا جائزہ لیا، صوبائی سیکرٹری داخلہ احمد جاوید قاضی بھی ہمراہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی کے لیے جاسوسی کے الزام میں ایران میں 22 افراد گرفتار
پاک بحریہ کی شمولیت
پنوعاقل میں گڈو بیراج اور سکھر بیراج کے مقام پر پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہونے لگا ہے، کچے کے دریائی علاقوں میں سینکڑوں بستیاں زیر آب آگئی ہیں۔
پاک نیوی کے جوان سیلاب متاثرین کو ریسکیو کرنے کے لیے سرگرم ہیں جبکہ مقامی لوگ کسی صورت اپنا گھر چھوڑ کر باہر آنے کی تیار نہیں ہیں۔
ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی سندھ نے گڈو بیراج پر 14 سے 15 ستمبر تک اونچے درجے کے سیلاب کا الرٹ جاری کیا ہے۔
نوڈیرو میں سیلاب گھروں میں داخل ہو چکا ہے، مکین شدید مشکلات شکار ہیں، مال مویشی محفوظ مقام پر منتقل نہ ہو سکے، بڑی تعداد میں جانور پھنس گئے۔
سیلاب کا پس منظر
خیال رہے پاکستان میں 26 جون سے شروع ہونے والے مون سون سیزن کے دوران بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ اس دوران ملک کے زیادہ تر علاقوں میں شدید بارشیں ہوئیں جبکہ بادل پھٹنے کے واقعات بھی ہوئے، جن سے خیبر پختونخوا کے بالائی علاقوں میں تباہی ہوئی اور بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا۔
اسی طرح راولپنڈی اسلام آباد سمیت دوسرے پوٹھوہاری علاقوں میں بھی سیلاب اور لوگوں کے ڈوبنے کے واقعات رونما ہوئے۔
بعدازاں پنجاب میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا جبکہ انڈیا کی جانب سے بھی دریاؤں میں پانی چھوڑ دیا گیا جس سے انڈیا کی جانب سے پاکستان آنے والے دریاؤں میں شدید طغیانی پیدا ہوئی اور بڑے پیمانے پر علاقے ڈوب گئے۔
لاہور سے گزرنے والے راوی کے کناروں پر بھی شدید تباہی دیکھنے کو ملی اور کئی ہاؤسنگ سوسائٹیز ڈوب گئیں، جبکہ ستلج اور چناب میں بھی سیلابی کیفیت پیدا ہوئی جس سے کناروں کے قریب علاقے متاثر ہوئے۔
اس وقت بھی پنجاب کے کئی علاقوں میں ریسکیو آپریشن جاری ہے اور بڑی تعداد میں لوگ ریلیف کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔
اس وقت سیلاب کا زور رحیم یار خان اور ملتان کی طرف ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ وہاں صورت حال کو قابو میں رکھنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔