عوام کو شکایت ہے کہ حکومت ہماری بات نہیں سنتی لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق وہ نہ صرف بات سنتی ہے بلکہ 40 لاکھ فونز مانیٹر بھی کرتی ہے: محمد حنیف
حکومت کی شہریوں کی جاسوسی پر تبصرہ
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) بی بی سی کی جانب سے شیئر کی گئی ریل میں محمد حنیف نے حکومت کی شہریوں کی جاسوسی سے متعلق شائع ہوئی ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں عام طور پر ہمیں حکومت سے شکایت رہتی ہے کہ وہ ہماری بات نہیں سنتی لیکن اب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک ریسرچ کی ہے اور بتایا ہے کہ نہ صرف وہ ہماری بات سنتی ہے بلکہ ایک ہی وقت میں چالیس لاکھ موبائل فون کو مانیٹر کر سکتی ہے اور کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سیکرٹری داخلہ کی شہید کانسٹیبل مرزا ارشد بیگ کی نماز جنازہ میں شرکت، اہل خانہ سے اظہار تعزیت
حکومت کی معلوماتی مشقیں
محمد حنیف کا اپنے تبصرے میں کہنا تھا کہ آپ دفتر فون کرتے ہیں، حکومت سن رہی ہے، دفتر سے گھر آتے ہوئے میسج کرتے ہیں کہ سبزی کونسی لاؤں، حکومت آپ کا پیغام پڑھ رہی ہے، فیس بک پر کس کی تصویر کو لائیک کیا، حکومت کو پتہ ہے، انسٹاگرام پر چھپ کر کس کا پیج دیکھتے ہیں، حکومت کو سب علم ہے۔ حکومت ظاہر ہے کہ مانے گی یا نہیں کہ وہ اپنے ہی شہریوں کی جاسوسی کرتی ہے، یوں لگتا ہے کہ حکومت کا خیال ہے کہ عوام انہیں کچھ زیادہ پسند نہیں کرتے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی میں 6 سالہ بچے کے ساتھ بدفعلی، 2ملزم گرفتار
عوام کا حکومت پر عدم اعتماد
انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت کو عوام پر شک ہے تو عوام کو مکمل یقین ہے کہ ان کی حکومت اس قابل ہی نہیں کہ چین اور یورپ سے مہنگی ٹیکنالوجی خرید کر بھی ان کے فون مانیٹر کر سکے۔ اگر ایسا ہو رہا ہوتا تو سیلاب میں گھرے ہوئے ہر بندے کی فون کال سنتی۔ بھینس بکریوں کے لئے چارے کا بندوبست کرتی۔ خیر حکومت نے کروڑوں ڈالر خرچ کر کے یہ ٹیکنالوجی اس لئے نہیں خریدی کہ لوگوں کی مدد کی جا سکے بلکہ اس لئے خریدی گئی ہے تاکہ لوگوں کو ان کے گھروں میں بیٹھے ہی ڈرا دیا جائے۔
حکومت کے جواب اور عوام کی ضرورتیں
محمد حنیف کا کہنا تھا کہ یقیناً کچھ لوگ فون کے ذریعے حکومت کو برا بھلا کہتے ہوں گے، کچھ لوگ باقاعدہ حکومت کیخلاف سازشیں بھی کرتے ہوں گے لیکن زیادہ لوگ تو فون پر حکومت کو ڈھونڈ ہی رہے ہیں۔ کوئی ریسکیو ٹیم کو، کوئی تھانے والوں کو، کوئی بجلی والوں کو، کیونکہ ہماری حکومت ہمارے فون مانیٹر کرنے میں اتنی مصروف ہے، اس لئے عوام کو آگے سے یہی جواب ملتا ہے کہ آپ کو مطلوبہ سہولت میسر نہیں ہے۔








