سیلاب:غفلت کسی عذاب سے کم نہیں

آفت کی حقیقت

تحریر: رانا بلال یوسف

پنجاب کی سرزمین آج پھر پانی کے طوفان میں ڈوبی ہوئی ہے۔ راوی، ستلج اور چناب اپنی بلند ترین سطح پر بہہ رہے ہیں۔ ایک طرف بھارت کی طرف سے اچانک پانی چھوڑنے کا فیصلہ، دوسری جانب غیر معمولی مون سون کی بارشیں، اور تیسری طرف بڑھتی ہوئی گلوبل وارمنگ—یہ سب مل کر ایسی طغیانی لے کر آئے ہیں جس نے لاہور، گجرات، سیالکوٹ، پسرور، اور ملتان تک بستیاں اجاڑ دی ہیں۔ ہزاروں خاندان بے گھر، لاکھوں ایکڑ فصلیں برباد، اور سینکڑوں زندگیاں لمحوں میں ختم ہو گئیں۔ مگر یہ ریلا یہیں نہیں رکے گا۔ یہ پانی آگے بڑھتے ہوئے سندھ کی زمینوں کو بھی لپیٹے میں لے گا اور جب تک یہ طوفان بحیرۂ عرب میں جا کر نہیں گرتا، اپنے راستے کے سبھی دیہات اور شہروں کے لیے مزید تباہی لاتا رہے گا۔ اگر یہ ہماری نااہلی ہے تو پھر اس کا حساب کون دے گا؟

یہ بھی پڑھیں: نیب کا لاہور ہائیکورٹ سے جرمانے کے حکم کیخلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع

بغیر ذمہ داری کے آسمانی قضا

یہ تصور نیا نہیں کہ ہر آفت کو آسمانی غضب قرار دے دیا جائے۔ انسانی تاریخ کے اوراق اٹھا کر دیکھ لیں تو بابل کی تہذیب سے لے کر یونان اور مصر تک، سیلابوں اور زلزلوں کو خدا کے غصے سے تعبیر کیا جاتا رہا۔ اسی بیانیے کی ایک جھلک ہے، جسے ہر قوم نے اپنے رنگ میں بیان کیا۔ یہی روش بعد کی صدیوں میں بھی دیکھی گئی۔ جب یورپ اور امریکہ میں کالے غلاموں پر ناقابلِ بیان ظلم ہوتے تھے تو گورے آقا یہی سبق دلواتے کہ یہ دنیا کی تکالیف وقتی ہیں، صبر کرو، آخرت میں انعام ملے گا۔ اس طرح ظلم کو جاری رکھا گیا۔ یعنی حقیقت سے آنکھیں بند کرکے ذمہ داری کسی اور کے اوپر ڈال دینا۔

یہ بھی پڑھیں: چار ماہ میں 27 ہزار ڈالر، مفت رہائش اور ٹکٹ: وہ امریکی ریاست جہاں غیر ملکی ملازمین کی طلب ہے

سیلاب کا سائنسی اور انتظامی نااہلی

حقیقت یہ ہے کہ آج کا سیلاب محض کسی غیبی غضب کی علامت نہیں بلکہ سائنسی اور انتظامی نااہلی کا نتیجہ ہے۔ بھارت کی طرف سے اچانک دریاؤں میں پانی چھوڑا جانا ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے جسے ہمارے سفارتی محاذ پر سنجیدگی سے اٹھایا جانا چاہیے تھا۔ اس کے ساتھ غیر معمولی مون سون کی بارشیں اور بڑھتی ہوئی گلوبل وارمنگ نے دریاؤں کو مزید بے قابو کر دیا۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ اگر ہمیں معلوم تھا کہ پانی آخرکار پنجاب سے ہوتا ہوا سندھ کی زمینوں تک پہنچے گا، تو بروقت حفاظتی اقدامات کیوں نہ کیے گئے؟ کیوں آج بھی بند ٹوٹنے سے دیہات ڈوب जाते ہیں اور شہر کی نکاسی کے نظام چند گھنٹوں کی بارش میں ناکارہ ہو جاتے ہیں؟ یہ غفلت کسی عذاب سے کم نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 39ویں آئی ای ای ای پی انٹرنیشنل سمپوزیم کا انعقاد، صنعت اور پیشہ ورانہ انجینئرنگ اداروں کے درمیان روابط کو مضبوط بنانے کا اعلان

حکومتی عدم توجہی

ریاستی رویئے کی سب سے بڑی کمزوری یہی ہے کہ ہمارے حکمران ہر آفت کو وقتی بحران سمجھتے ہیں، کسی مستقل پالیسی کی ضرورت نہیں جانتے۔ سیلاب کے دنوں میں وزراء ہیلی کاپٹروں پر بیٹھ کر فضائی معائنہ کرتے ہیں، چند فوٹو سیشن ہوتے ہیں اور کچھ عارضی خیمے لگا کر معاملہ نمٹا دیا جاتا ہے۔ مگر جیسے ہی پانی اترتا ہے، سارا شور تھم جاتا ہے اور فائلوں میں بند منصوبے پھر سے گرد کھانے لگتے ہیں۔ نہ ڈیم بنتے ہیں، نہ دریاؤں کے کنارے مضبوط کیے جاتے ہیں، نہ آبادیوں کو محفوظ علاقوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ ہر سال تاریخ خود کو دہراتی ہے، سیلابی پانی آتا ہے، بستیاں اجڑتی ہیں، حکمران وعدے کرتے ہیں، اور پھر سب کچھ فراموش ہو جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک کے بیشتر علاقوں میں گرمی کی شدت برقرار، بعض مقامات پر بارش کا امکان

دنیا سے سبق

دنیا کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سیلاب صرف ہمارے حصے کا مسئلہ نہیں تھا، مگر فرق یہ ہے کہ دوسروں نے اسے سبق بنایا اور ہم نے اسے تقدیر کہہ کر بھلا دیا۔ جاپان نے سمندری طوفانوں اور سونامی کے بعد ساحلی دیواریں اور جدید ترین الارم سسٹم بنائے، چین نے بڑے شہروں کے گرد مصنوعی جھیلیں اور جنگلات لگا کر بارش کے پانی کو جذب کرنے کا انتظام کیا، اور ہالینڈ جیسا چھوٹا ملک آدھی سرزمین سمندر سے نیچے ہونے کے باوجود عظیم الشان ڈیمز اور واٹر مینجمنٹ کے ذریعے دنیا کے لیے مثال بن گیا۔ ان قوموں نے اسے قدرت کا عذاب کہہ کر چھوڑنے کے بجائے سائنس، ٹیکنالوجی اور پالیسی سے مقابلہ کیا۔ سوال یہ ہے کہ ہم کب تک ہر طوفان کے بعد صبر اور شکر کی تلقین سنیں گے اور اپنی نااہلی کو چھپاتے رہیں گے؟

یہ بھی پڑھیں: بانی پی ٹی آئی پر ٹارچر کیا گیا، سلمان اکرم راجہ

غریب پر آفات کی زد

مان لیتے ہیں حکومت کی بات کہ یہ پانی واقعی عذاب ہے تو پھر یہ عذاب ہمیشہ غریب کی جھونپڑی پر ہی کیوں گرتا ہے؟ کسان کی کچی دیواریں کیوں ٹوٹتی ہیں، مزدور کا کھیت کیوں ڈوبتا ہے اور دیہات کی بستیوں میں ہی کیوں قبریں کھلتی ہیں؟ یہی عذاب کبھی اقتدار کے ایوانوں، محلات کی سنگِ مرمر کی چھتوں، امیروں کے بنگلوں یا شوگر ملوں کے کارخانوں پر کیوں نہیں آتا؟ وہاں تو ایک قطرہ بھی نہیں ٹپکتا۔ کیا قہر بھی صرف کمزور پر ٹوٹتا ہے اور طاقتور کو چھوڑ دیتا ہے؟ یا اصل سچ یہ ہے کہ ہم نے اپنی نااہلی اور بدانتظامی کو عذاب کا نام دے کر پردہ ڈال رکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: غزہ سے مزید 3 اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں برآمد

مسائل اور حل

اگر یہ سب کچھ واقعی عذاب کی ہی صورت ہے تو پھر دنیا کے وہ خطے کیوں محفوظ ہیں جہاں ہمارے بقول سب سے زیادہ فحاشی، بے حیائی اور دین سے انحراف پایا جاتا ہے؟ کیوں وہاں کا کسان اپنے کھیت میں سرسبز فصل کاٹتا ہے اور یہاں کا کسان اپنی کچی جھونپڑی سمیت پانی میں بہہ جاتا ہے؟ یہ تضاد خود ہمارے بیانیے کو جھٹلا دیتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا سے آنکھیں چرا لی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی قوم کو ایک ساتھ آنے کی ضرورت ہے: حافظ نعیم الرحمٰن

اسلامی تعلیمات

اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ مشکلات میں صرف تقدیر کو کوسنا کافی نہیں، بلکہ حکمتِ عملی اور ذمہ داری لازم ہے۔ نجات صرف دعا سے نہیں، ڈسپلن اور منصوبہ بندی سے بھی آتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بارش یا دریا کا پانی خود اتنا بڑا مجرم نہیں ہوتا، جتنا ہماری نااہلی اسے بنا دیتی ہے۔ جب بند مضبوط نہ ہوں، نکاسیٔ آب کا نظام بوسیدہ ہو، دریاؤں کے کنارے پر قبضے کر کے بستیاں بسا دی جائیں اور ہنگامی منصوبہ بندی صرف فائلوں تک محدود ہو تو پھر بارش کا ہر قطرہ عذاب بن جاتا ہے۔

عملی اقدامات کی ضرورت

دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں بارش کے پانی کو نعمت سمجھا جاتا ہے، اسے محفوظ کر کے توانائی، زراعت اور شہری ضروریات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں یہی پانی تباہی اور بربادی کی علامت بن جاتا ہے کیونکہ یہاں محض بیانات دیئے جاتے ہیں، عملی اقدامات نہیں کیے جاتے۔ مسئلے کا حل محض دعاؤں یا نصیحتوں میں نہیں ہے، بلکہ عملی اقدامات میں ہے۔ مضبوط ڈیم، جدید واٹر مینجمنٹ، دریاؤں کے کناروں کی صفائی اور قبضہ مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن، شہری منصوبہ بندی اور جنگلات کی بحالی وہ اقدامات ہیں جو پاکستان کو آنے والے سیلاب سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے یہ سبق سیکھا اور آج بھی ہر بارش یا طوفان میں لاکھوں افراد محفوظ رہتے ہیں۔ ہمیں بھی اپنی آنکھیں کھول کر یہ سمجھنا ہوگا کہ قدرت کی آزمائش اور انسانی نااہلی کے درمیان فرق صرف ہماری حکمت عملی اور سنجیدگی سے طے ہوتا ہے۔

نوٹ: ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Categories: بلاگ

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...