انگریز گاؤں کو ”گھسیٹ“کر اسٹیشن والی جگہ پر لے آئے اور 1894ء میں ایک ریلوے اسٹیشن بنا کر اس کا نام روجھاں والی رکھ دیا

سفر کی تکالیف

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 253
ان دنوں اس گاڑی میں سفر کرنا ایک کڑا اور اذیت ناک امتحان ہوتا تھا۔ ان ہی شہروں میں ریت کے کسی ٹیلے کے آس پاس جہاں کہیں بھی کچھ جھونپڑیوں یا کچے مکانوں پر مشتمل کوئی گاؤں نظر آتا تو وہیں کہیں، نزدیک ہی کوئی چھوٹا سا اسٹیشن بنا کر اسے اس علاقے کے کسی بڑے اور قدرے معزز باشندے کے نام سے منسوب کر دیا جاتا تھا۔ گاڑی ایسے ہی کئی اسٹیشنوں مثلاً لال سہانرا، حاصل پور، چشتیاں، مدرسہ وغیرہ سے گزر کر بہاول نگر جنکشن پر پہنچ جاتی تھی۔ اس سارے سفر کے دوران بس دو چار ہی اسٹیشن جانے پہچانے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: تیل کمپنیوں نے یومیہ فروخت سے زائد پیٹرول دینے پر پابندی لگا دی

آنے والے اسٹیشنوں کا تعارف

اس روٹ پر آنے والے چند اسٹیشنوں کے بارے میں جانتے ہیں۔ سمہ سٹہ سے نکلتے ہی کچھ دور بعد بغدادلجدید کا اسٹیشن آتا تھا، جو بہاولپور کے ساتھ ہی لگتا تھا اور آج کل وہ شہر میں شامل ہو گیا ہے اور وہاں اسلامیہ یونیورسٹی کا نیا کیمپس بن گیا ہے۔ آگے لال سہانرہ اسٹیشن تھا، جہاں بہت بڑا جنگل ہے اور جو آج کل وائلڈ لائف انیمیل پارک کہلاتا ہے اور جو کالے ہرنوں کی افزائش نسل کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہاں کچھ بڑی نہروں میں سیثانوی نہروں کے ذریعے پانی کی تقسیم کا نظام بھی قائم ہے۔

آگے نسبتاً تھوڑا بڑا قصبہ حاصل پور اور اس کے بعد مشہور شہر چشتیاں ہے جو آج کل اچھا خاصہ بڑا شہر اور علاقے میں اجناس کی ایک بڑی منڈی اور کاروباری مرکز بھی بن گیا ہے۔ ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ لکڑی کی بھی ایک بہت بڑی منڈی ہے۔ علاقے میں گنا کافی مقدار میں پیدا ہوتا تھا سو یہاں ایک شوگر مل بھی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی طاقت کھو چکی، اب کوئی تحریک چلانے کے قابل نہیں، عرفان صدیقی

بہاولنگر جنکشن

آگ سے سیکھ لیا ہے یہ قرینہ ہم نے
بْجھ بھی جانا تو بڑی دیر سلگتے رہنا
بہاولنگر جنکشن میں آنے جانے والی گاڑیوں کا قیام قدرے طویل ہوتا تھا کیونکہ ایک تو جنکشن ہونے کی وجہ سے اس کی بڑی اہمیت تھی، دوسرا وہاں انجن اور گاڑی میں پانی بھرا جاتا تھا اور ڈبوں کی صفائی وغیرہ بھی ہوتی تھی۔ پھر یہیں سے ایک اور سرحدی قصبے فورٹ عباس کی طرف ایک لائن نکلتی تھی، اس لیے وہاں کے مسافروں کو بھی اپنا سفر آگے جاری رکھنے کے لیے اس لائن پر اترنا یا یہاں سے سوار ہونا ہوتا تھا۔ بہاولنگر ویسے بھی اس علاقے کا بہت بڑا اور اپنے وقتوں کا جدید ترین ریلوے جنکشن ہوا کرتا تھا، جہاں تمام سہولتیں، کھانے پینے کے سٹال اور مسافر خانے وغیرہ موجود ہوتے تھے۔

تاریخی پس منظر

لیکن یہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ جب ریل کی یہ پٹری بچھائی جا رہی تھی تو اس کے قریب ہی کوئی 2 کلومیٹر دور ایک چھوٹا سا گاؤں روجھاں والی ہوتا تھا۔ انگریز اس گاؤں کو ”گھسیٹ“ کر اسٹیشن والی جگہ پر لے آئے اور یہاں 1894ء میں ایک ریلوے اسٹیشن بنا کر اس کا نام روجھاں والی رکھ دیا۔ پھر علاقے کے کچھ معززین کے بے حد اصرار پر ریاست بہاولپور کے نواب محمد بہاول نے اس اسٹیشن کو اپنے نام سے منسوب کرنے کی منظوری دے دی۔ اور اس کے بعد یہ بہاول نگر اسٹیشن کے نام سے جانا جانے لگا تھا۔ پھر جب 1928ء میں یہاں سے فورٹ عباس کی برانچ لائن کا آغاز ہوا تو یہ اسٹیشن سے جنکشن بن گیا۔ کراچی اور کوئٹہ سے بھی سامان سے بھری ہوئی بے شمار مال گاڑیاں یہاں سے گزرتی تھیں جو ایک طرف تو کراچی کی بندر گاہ پر اتارا جانے والا سامان دہلی پہنچاتی تھیں تو دوسری طرف وہ کوئٹہ چمن وغیرہ سے تازہ، پھل، سبزیاں، خشک میوہ جات اور معدنیات وسطی اور جنوبی ہندوستان کے مختلف علاقوں میں لے جاتی تھیں۔

(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...