پاکستان بننے کے بہت عرصے بعد تک سمہ سٹہ بہاولنگر والی لائن پر تین چار گاڑیاں روزانہ آتی جاتی تھیں، ایک دو تو امروکا کی طرف نکل جاتی تھیں

مصنف: محمد سعید جاوید
بہاول نگر اسٹیشن کی تاریخ
قسط: 254
1935ء سے 1940ء کے بیچ بہاول نگر اسٹیشن پر گاڑیوں کی آمد و رفت عروج پر تھی۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت یہاں سے روزانہ تیس پینتیس گاڑیاں گزرا کرتی تھیں۔ انجنوں کی دیکھ بھال اور مرمت کے لیے یہاں ایک بڑا ورکشاپ بھی تھا جہاں بیک وقت چار انجنوں کی تکنیکی دیکھ بھال اور مرمت کی جا سکتی تھی۔ اس کے علاوہ ہنگامی حالات سے نبٹنے کے لیے اضافی انجن بھی موجود رہتے تھے۔
ریلوے کے ملازمین اور ان کی سہولیات
اْن دنوں میں یہاں بے شمار ریلوے کے ملازمین مصروف ِ کار رہتے تھے، جن کے لیے اسٹیشن کے قریب ہی بڑی تعداد میں کوارٹر تعمیر کیے گئے تھے۔ ان کے بچوں کی تعلیم کے لیے یہاں ابتدائی جماعتوں کے لیے سکول بھی بنا کر دئیے گئے تھے۔ یہ اتنا بڑا اسٹیشن تھا کہ یہاں انگریز افسروں اور انجنیئروں کی تعیناتی ہوا کرتی تھی اور قریب ہی ایک کالونی میں ان کے شایان شان رہائش گاہیں مہیا کی جاتی تھیں جہاں ان کو تمام سہولتیں، جن میں کلب، ناچ گھر، سکول اور کھیل کود کے میدان ہوتے تھے۔
پانی اور بجلی کی سہولیات
اس کے علاوہ یہاں میٹھے پانی کے بڑے بڑے ٹینک بھی بنوائے گئے تھے جہاں سے اسٹیشن، اور کالونیوں اور کوارٹروں کو پانی کی سپلائی دی جاتی تھی۔ ایک بڑا بجلی گھر بھی تعمیر ہوا۔ اِنہی دنوں نہری نظام کے مکمل ہونے کے بعد اب یہاں ہر طرف لہلہاتے کھیت اور ہریالی نظر آنے لگی تھی۔
بہاول نگر سے دوسرے راستوں کی معلومات
بہاول نگر سے روانہ ہو کر یہ گاڑیاں ریاست بہاولپور کے آخری قصبوں میں سے ایک یعنی منڈی صادق گنج پر پہنچ کر دو مختلف راستوں سے دہلی چلی جایا کرتی تھیں۔ ایک راستہ امروکا اور فاضلکا کی طرف سے اور دوسرا مشرق کی طرف نکل جاتا اور بٹھنڈہ سے ہوتا ہوا دہلی جا نکلتا۔
ریاست بہاولپور اور ریلوے کا بٹوارہ
بعد ازاں جب پنجاب کا بٹوارہ ہوا تو نارتھ ویسٹرن ریلوے بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ بٹھنڈہ کا راستہ معطل ہونے کے بعد منڈی صادق گنج سے اب صرف ایک ہی لائن امروکا اسٹیشن تک جاتی تھی جو پاکستان میں شامل ہو گیا تھا اور اب یہ لائن بھی اسی سرحدی قصبے یعنی امروکا تک ہی محدود ہو کر رہ گئی تھی، جہاں وہ اپنے سفر کا اختتام کر کے الٹے قدموں ایک بار پھر بہاول نگر اور سمہ سٹہ کی طرف واپس چلی جاتی تھی۔
پاکستان کے قیام کے بعد کی صورت حال
قیام پاکستان کے بعد بہاولنگر کو پنجاب کا ایک ضلع بنا کر علاقے کی 5 تحصیلوں یعنی بہاولنگر، چشتیاں، فورٹ عباس، ہارون آباد اور منچن آباد کو اس سے منسلک کر دیا گیا۔ اب یہاں ضلع کی سطح کے تمام سرکاری اور انتظامی دفاتر، سرکاری تعلیمی ادارے، کچہریاں، اور ہسپتال وغیرہ موجود ہیں۔ یہاں تعلیم کا معیار کوئی ایسا قابل تعریف نہیں ہے اور شرح خواندگی 30 فی صد سے بھی کم ہے، کچھ اچھے نجی سکولوں اور کالجوں کے علاوہ یہاں ایک میڈیکل کالج زیر تعمیر ہے اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور ورچوئل یونیورسٹی نے اپنے کیمپس بھی کھولے ہوئے ہیں۔
سمہ سٹہ ٹرین سروس کی بندش
پاکستان بننے کے بہت عرصے بعد تک سمہ سٹہ بہاولنگر والی لائن پر تین چار گاڑیاں روزانہ آتی جاتی تھیں، ایک دو تو امروکا کی طرف نکل جاتی تھیں اور 2 وہاں کی برانچ لائن پر فورٹ عباس کی راہ پر چل پڑتی تھیں۔ رفتہ رفتہ بہاول نگر سے امروکا جانے والی یہ لائن اپنی افادیت کھونے لگی تو مختصر سی اس پٹری کو مالی اور انتظامی طور پر نا قابل عمل قرار دے کر ستمبر 1993ء میں مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔