خود تو ڈوبی تھی جاتے جاتے بہاولنگر سے فورٹ عباس جانیوالی بڑی برانچ لائن کو بھی ساتھ لے ڈوبی، دوڑتی بھاگتی گاڑیوں کی چپ چاپ موت واقع ہو گئی

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 255
یہ خود تو ڈوبی ہی تھی لیکن جاتے جاتے بہاولنگر سے فورٹ عباس جانے والی ایک بڑی برانچ لائن کو بھی ساتھ لے ڈوبی۔ عین اسی دن اْس کو بھی اْنھی وجوہات کی بناء پر بند کر دیا گیا۔ گویا ایک ہی دن میں 2 برانچ لائنوں پر دوڑتی بھاگتی گاڑیوں کی چپ چاپ ہی موت واقع ہو گئی تھی۔ جن کو تو ان لائنوں اور ان پر چلنے والی گاڑیوں سے محبت تھی وہ تو دل مسوس کر رہ گئے، تاہم عام لوگوں نے اسے معمول کی کارروائی سمجھ کر کوئی توجہ ہی نہ دی تھی۔
بہاول نگر جنکشن کا حال
2 لائنیں یکے بعد دیگرے بند ہو جانے سے بہاول نگر جنکشن تو گویا یتیم ہی ہو گیا، اب اس کے سر سے جنکشن والا تاج بھی اتار دیا گیا اور وہ محض ایک عام سا ریلوے اسٹیشن ہی رہ گیا تھا۔ جس کا دل رکھنے کی خاطر کچھ عرصہ تک ایک گاڑی روزانہ سمہ سٹہ سے وہاں بھیجی جاتی تھی جو اس کا حال چال پوچھ کر لوٹ جاتی تھی۔ حالانکہ اس میں مسافر بھی نہ ہونے کے برابر ہوتے تھے۔ بارہ ڈبوں پر مشتمل اپنے وقتوں کی اس مقبول گاڑی میں اب صرف 3 ڈبے ہی لگتے تھے اور یہ بھی محض ماضی کی ایک ریت نبھانے کی خاطر مختلف اسٹیشنوں پر رکتی ہوئی تین چار گھنٹے میں منزل مقصود پر پہنچ جاتی تھی۔
نئے سفری اہمیت
جب کہ وہاں جانے والے مسافروں نے بسوں اور ویگنوں میں بہت کم وقت میں اپنی منزل پر پہنچنے کا راز پا لیا تھا۔ ویسے بھی ان علاقوں میں رہنے والے مقامی باشندوں کے مالی وسائل بہتر ہوتے چلے گئے، آمدنی میں اضافہ ہوا تو ہر گھر کی دہلیز پر ایک یا ایک سے زیادہ موٹر سائیکلیں بھی آ کر کھڑی ہو گئیں۔ اب یہ سستی سواری ان کی اپنی تھی، جہاں بھی اور جب بھی جی چاہتا اس کی لگامیں تھامتے اور جہاں دل کرتا اسے لے جاتے۔ اب سفر اتنا سہل ہو گیا تھا کہ جہاں ریل گاڑی دو گھنٹے میں پہنچایا کرتی تھی وہاں اب دو چار دوست اکٹھے مل کر اپنی ذاتی موٹر سائیکلوں پر چائے پینے یا کھانا کھانے چلے جایا کرتے ہیں۔
ریل گاڑی کی حالت
اس ریل گاڑی کو بیوہ کر کے چھوڑ دیا گیا دو تین ڈبوں کی اس لنگڑی لولی گاڑی میں اب ایک تھکے ہوئے پرانے سے انجن، ڈرائیور اور گارڈ کے علاوہ چند ایک مسافر ہی ہوتے تھے جو انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے وہ بھی غالباً ریل کے سفر کا لطف اٹھانے کے لیے اس میں بیٹھ جایا کرتے تھے۔ ان حالات کے پیش نظر اب اس لائن کے بھی بند ہونے کے بارے میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کیونکہ اس کے سوا اب اور کوئی چارہ بھی نہ تھا۔
بند ہونے والی لائنیں
در اصل یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس ساری ریلوے لائن کے متوازی ایک بڑی اور وسیع سڑک بھی دوڑی چلی جاتی ہے، جو تیز رفتار بسوں اور ویگنوں کی وجہ سے مسافروں کی اب پہلی ترجیح بن گئی تھی۔
یادیں
اس سے پہلے ستمبر 1993ء میں بہاول نگر سے فورٹ عباس اور امروکا ریلوے لائنوں پر گاڑیاں اپنا آخری پھیرا لگانے گئیں تھیں اور پھر دوبارہ کبھی ادھر کا رخ ہی نہ کیا۔ رخصتی کے بعد ان علاقوں میں ریل کے ڈبوں کی کھڑکھڑاہٹ، پرانے وقتوں کے سٹیم انجنوں کی پھنکار، دلفریب سیٹیوں، اور چھک چھک کی مدھر آوازیں بھی ہمیشہ کے لیے حسین یادیں چھوڑ کر اپنے نہ بھولنے والے ماضی میں گم ہو گئیں تھیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔