اراکین اسمبلی، طاقتور طبقات، ججز، بیورو کریٹس، ایڈووکیٹ جنرل آفس اور اعلیٰ افسران کی تنخواہوں میں اضافہ کرتے رہنا قرین انصاف نہیں ہے۔

مصنف کا تعارف
مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 188
یہ بھی پڑھیں: گاڑی میں نورجہاں کا گانا اونچی آواز میں سننے والے شہری کو عدالت نے ضمانت پر رہا کردیا
معاشی عدم مساوات
میری ذاتی رائے میں، صاحبانِ اقتدار اور اراکین اسمبلی کا طاقتور طبقات، جیسے کہ ججز، بیوروکریٹس، ایڈووکیٹ جنرل آفس، اور دیگر اداروں کے اعلیٰ افسران کی تنخواہوں میں بے تحاشا اضافہ کرنا انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔ آج 2023 میں ایک مزدور کی تنخواہ 25 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے، اور اس کے پاس ہاؤسنگ، ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولیات بھی نہیں ہیں۔ لہٰذا، پاکستان کے مختلف کم مراعات یافتہ طبقات جیسے کہ اساتذہ، ڈاکٹرز، انجینئرز، مزدور اور دیگر کم گریڈ کے ملازمین احساس محرومی کا شکار اور معاشی مشکلات میں مبتلا ہیں، جس کا فوری ازالہ ضروری ہے۔ میری رائے میں، کم از کم اور زیادہ سے زیادہ تنخواہوں میں تفاوت ایک اور دس اور زیادہ سے زیادہ ایک اور بیس کی شرح ہونی چاہیے، جبکہ موجودہ تفاوت ایک اور پچاس سے بھی زائد ہے۔ اس لحاظ سے، آج مزدور کی تنخواہ کم از کم پچاس ہزار روپے ہونی چاہیے تاکہ موجودہ تنخواہوں کے سٹرکچر کو منصفانہ گردانا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: راولپنڈی پولیس نے عمران خان کی بہنوں کو تحویل میں لے لیا
قومی مسائل پر غور و فکر
اُنہی دنوں، ایڈووکیٹ جنرل آفس میں ہوتے ہوئے، میں نے پی ٹی وی کرنٹ افیئرز چینل کے بلاوے پر ٹاک شوز میں شرکت کی۔ اس دوران مجھے یہ احساس ہوا کہ ہماری بار کونسلیں، سیاسی جماعتیں اور دیگر ادارے، یہاں تک کہ ہماری اسمبلیوں میں بھی، قومی مسائل اور ملک کے سنگین مسائل پر توجہ نہیں دی جاتی، بحث و مباحثے نہیں ہوتے۔ مسائل کا رونا تو ہر کوئی روتا نظر آتا ہے، لیکن ان مسائل کا حل نہ حکومت پیش کرتی ہے اور نہ سیاسی جماعتیں۔ پاکستانی قوم سماجی، معاشی، سیاسی اور ترقی کے متعدد مسائل کا سامنا کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سونے کی قیمت میں اضافہ
چیلنجز اور اصلاحات کی ضرورت
ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات، قومی دفاع، دہشت گردی، بڑھتی ہوئی آبادی، پی آئی اے، سٹیل مل، ریلوے جیسے اداروں کے مسائل، پانی کی کمی، تعلیم اور صحت کے مسائل درپیش ہیں۔ ان مسائل پر قومی سطح پر طویل مباحث کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی، پولیس، الیکشن اور عدلیہ میں اصلاحات کی ضرورت ہے، جن پر غور و فکر اور ٹھوس تجاویز فراہم کرنے کے لیے دانشوروں کے تھنک ٹینکس قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یہ پاسپورٹ اسرائیل کیلئے کارآمد نہیں: پاکستان کے علاوہ ایک اور ملک نے پاسپورٹ پر شائع کرنے کا اعلان کر دیا
اپنے تجربات کا اشتراک
میں لکھاری نہیں ہوں، لیکن ان خیالات کے پیشِ نظر میں نے 2005 میں "عہد حاضر میں تھنک ٹینکس کی ضرورت" کے موضوع پر ایک آرٹیکل لکھا تھا جو روزنامہ "جنگ" میں 24 نومبر 2005 کو شائع ہوا۔ یہ میرے لیے ایک تحریک ثابت ہوا، جس نے مجھے سٹیزن کونسل آف پاکستان کے نام سے ایک تھنک ٹینک قائم کرنے کا جذبہ دیا۔ میں نے سوچا کہ تھنک ٹینکس کی ضرورت پر مضمون شائع کرنے سے ضروری نہیں کہ ملک میں دانشور حلقے منظم ہو جائیں، بلکہ مجھے خود اپنی حیثیت میں اس کی ابتداء کرنی چاہیے۔ چنانچہ میں نے اس کام کا بیڑا اٹھانے کا فیصلہ کیا۔
نوٹس
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔