کھڑکی والی نشست حاصل کرنے کے لیے اصل اور خونخوار جنگ تو بچوں میں ہوتی تھی، بچے سو جاتے تو ان کو ہٹا کر گھر کے بڑے تھوڑی بہت تانکا جھانکی کر لیتے
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 280
یہ ساری کہانیاں کچھ برس پہلے تک کی ہیں۔ اب حالات بدل رہے ہیں، جیسے جیسے کرائے کی رقم یا گاڑی کے معیار میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، سہولتیں بہتر ہوتی جا رہی ہیں۔ بہت اونچے درجے کے مسافروں کے لیے تو اب بہت بہتری آگئی ہے، تاہم نچلے درجوں تک پہنچنے میں کچھ وقت لگے گا، تب تک ان شاء اللہ لوگوں کے رویئے بھی بدل چکے ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: صوبائی کابینہ کے اجلاس میں اہم فیصلے، طلباء کو جلد لیپ ٹاپ دینے کی ہدایت، کھیلتا پنجاب گیمز 2024 کی منظوری
کھڑکی کھول دو
چلیں ایک بار ماضی کے زینے اترتے ہوئے گزرے وقتوں میں چلتے ہیں اور چشم تصور سے دیکھتے ہیں کہ ڈبے کے اندر کھڑکی کے قریب والی نشست کے حصول کے لیے کیسے کیسے ڈرامے اور بحث و تکرار ہو رہی ہوتی تھی۔ کسی بڑے کی طرف سے تو کھڑکی والی نشست حاصل کرنے کے لیے وہاں پہلے سے براجمان مسافر سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر درخواست کی جاتی تھی، جس کے لیے بیماری یا دم گھٹنے کا عذر بیان کیا جاتا تھا۔ یہ سب باتیں کرنے کے لیے وہ دو چار اکھڑے اکھڑے سانس لیتا اور کھانس کر بھی دکھاتا تھا۔
کچھ لوگ تو ترس کھا کر اس کو وہ جگہ دے دیا کرتے تھے، جس کو پاتے ہی وہ مسافر سب دُکھوں سے بے نیاز ہو کر مطمئن ہوجاتا۔ کچھ دیر مزید بیماری کی اداکاری کرنے کے بعد وہ باقاعدہ باہر کی تازہ ہوا سے لطف اندوز ہونا اور گنگنانا بھی شروع کر دیتا تھا۔ لیکن بعض مسافر تو اتنے سنگدل ہوتے تھے کہ کچھ بھی ہوجائے وہ اپنی نشست سے دستبردار ہونے پر تیار ہی نہیں ہوتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا: جامعات اور کالجز کی کارکردگی کی بنیاد پر درجہ بندی کرنے کا فیصلہ
دستاویزی ثبوت
ہاں اگر نشستیں محفوظ کروا لی جاتی تھیں تو کھڑکی والی نشست کا دعویدار ذرا بھی تردد نہ کرتا اور وہاں بیٹھے ہوئے شخص کو گھورتا ہوا اپنا ٹکٹ اس کی آنکھوں کے سامنے لہراتا، یہ بتانے کے لیے کہ یہ نشست ریلوے حکام نے اس کے نام لکھ دی ہے۔ اس لیے وہ کہیں اور اپنا ٹھکانہ کر لے اور اپنے اس قبضے کو طول دینے کی کوشش بھی نہ کرے۔
دستاویزی ثبوت ساتھ ہوتا تھا، انکار کی گنجائش نہیں ہوتی تھی اس لیے قابض شخص کو وہاں سے اٹھنا ہی پڑتا تھا۔ ورنہ اصلی دعوے دار دوڑ کر ٹی ٹی بابو کو بلا لیتا تھا اور پھرتے ہوئے تمام مسافر ساتھیوں کی موجودگی میں یوں اٹھایا جانا ایک قابل شرمندگی عمل ہوتا تھا۔ اس لیے کھسیانا سا ہو کر وہ دوسری طرف کی نشست پر کھسک جاتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر داخلہ محسن نقوی کی سعودی سفیر سے ملاقات، دوطرفہ تعاون پر تبادلہ خیال
بچوں کے درمیان جنگ
کھڑکی والی نشست حاصل کرنے کے لیے اصل اور خونخوار جنگ تو ایک ہی خاندان کے بچوں کے بیچ میں اس وقت ہوتی تھی جب ہر کوئی باہر جھانکنے کے لیے وہ نشست اپنے نام کروانا چاہتا تھا اور دوسرے ایسا ہونے نہیں دیتے تھے۔ عام حالات میں ایسا چھوٹا موٹا قضیہ تشدد یا محبت سے حل کر لیا جاتا تھا، اور باری باری ان کو وہاں بیٹھنے کا موقع دیا جاتا تھا۔
اور جب بچے تھک ہار کر سو جاتے تو ان کو وہاں سے ہٹا کر گھر کے بڑے خود وہاں بیٹھ کر تھوڑی بہت تانکا جھانکی کر لیتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ذولفی بخاری کو امریکی کانگریس کی ٹام لینٹوس کمیشن کے سامنے جانا مہنگا پڑ گیا
کھڑکیوں کی اہمیت
گاڑی، خصوصاً چھوٹے درجے کے ڈبوں میں کھڑکیوں کی اہمیت اس لیے بھی بہت زیادہ ہوتی تھی کہ تب گاڑیوں میں ایئر کنڈیشنڈ نہیں ہوا کرتے تھے اور شروع میں تو اکثر ڈبوں میں برقی پنکھے بھی نہیں ہوتے تھے۔ یہ بہت بعد میں نصب ہوئے تھے۔ بلا کی گرمی میں مسلسل دھوپ میں دوڑتی ہوئی گاڑی کے ڈبوں کی فولادی چھت اور دیواریں تپ کر بھٹی بن جاتی تھیں۔
اوپر چھت پر گھومنے والا پنکھا، اگر لگا ہوا ہوتا تھا، تو وہ کسی دم کرنے والے پیر کی طرح ایک مسافر پر ذرا سی ہوا پھونک کر اس پر احسان جتلاتا ہوا آگے بڑھ جاتا تھا۔ جب اگلے بندے کو کچھ مزہ آنے لگتا تو وہ اس سے بھی مکھ موڑ کر اور آگے چلا جاتا۔ اور آخر میں جب وہ محلے بھر میں خجل خوار ہوکر ایک بار پھر پہلے مسافر کی طرف لوٹتا تو وہ اس وقت تک شدید گرمی کا گلہ شکوہ شروع کر چکا ہوتا تھا۔
(جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








