کچھ تو سوچ سمجھ کر بات کریں، کبھی تو کچھ بخش دیا کریں،ہم تو ایسے لوگ ہیں کہ نہ شرمندہ ہوتے ہیں نہ ہی کچھ چھوڑتے ہیں،اُس کی کہی بات کڑوا سچ ہے

مصنف: شہزاد احمد حمید

قسط: 324

متاثرین کی حالت

یہ تو ان متاثرین کا حال تھا اب کچھ ان کا بھی ظرف دیکھ لیں جو ان کی امداد پر مامور، پڑھے لکھے اور افسران بالا تھے۔ غیر ممالک سے آنے والے سامان میں کمبل اور ٹینٹ بہت اعلیٰ معیار کے تھے۔ میں نے کمشنر اور ڈی سی روالپنڈی کے گھروں میں یہ ٹینٹ لگے دیکھے اور بہت سے افسروں کے گھروں میں امدادی کمبل سردی میں ان کو گرمائش دیتے دیکھے۔ مجھے یاد ہے صاحب کو بھی ایسے ہی ایک شاندار ٹینٹ اور کمبل کی آفر کی گئی تھی۔

جو انہوں نے ڈانت ڈپٹ کے بعد رد ہی نہیں کی تھی بلکہ یہ کہتے ہوئے ان کا تبادلہ بھی کرایا تھا؛ “کچھ تو سوچ سمجھ کر بات کریں۔ کبھی تو کچھ بخش دیا کریں।” ہم تو ایسے لوگ ہیں کہ نہ شرمندہ ہوتے ہیں اور نہ ہی کچھ چھوڑتے ہیں۔ ایک ان پڑھ سیانے کی بات میں کبھی بھی نہیں بھول سکتا؛ “پیر! اس ملک نوں پڑھے لکھیاں نے ڈو بویا اے۔ ان پڑھوں نے تے قربانیاں ای دیتیاں نئیں۔” اُس کی کہی بات کڑوا سچ ہے۔

کامیابی کے دو معیار

اس ملک میں کامیابی کے دو معیار ہیں، بے انتہا دولت یا انتہا کی دلیر بیباک خوبصورت عورت۔ شاہدرہ سے ایک خاتون ایم پی اے سعدیہ ہمایوں بھی اسی زمرے میں آتی تھیں۔ جتنی خوبصورت اتنی ہی دلیر بھی۔ گجرات کی رہنے والی بیگم شاہانہ فاروقی مسلم لیگ(ق) پنجاب وومن ونگ کی صدر تھیں۔ اپنے زمانے کی یہ بھی دیوی تھیں۔ خوب وقت کو انجوائے کیا۔ ان کی بیٹی بھی ایم پی تھی۔

ایک بار جب گوجرانوالہ سرکٹ ہاؤس میں انہیں بلانے ان کے کمرے گیا تو لمحوں کے لئے مبہوت ہو گیا تھا۔ رحیم یار خاں کی رہنے والی ایسی ہی خوبرو لبنیٰ طارق بھی بطور ایم پی اے کو اسمبلی پہنچانے میں ان کی دلکشی، خوبصورتی اور خاندانی مراسم کا عمل دخل تھا۔ باجی گلشن شاہدرہ سے تھیں۔ ان میں بھی دنیا داری کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی خواتین اپنی پارٹی کے بڑے رہنماؤں کے رحم و کرم پر ہی ہوتی تھیں۔ آج بھی بدلا کچھ نہیں۔

شہلا بٹ کا نہلا

شہلا بٹ سیالکوٹ سے مخصوص نشست پر ایم پی اے تھیں۔ ان کے میاں شاہد بٹ سابق ایم پی اے تھے۔ شاہد بٹ صاحب سے ملنے آئے اور ایک سب انجینئر کے تبادلے کی درخواست کی۔ ان دنوں تبادلوں پر پابندی تھی۔ چند دن بعد یہ پھر آئے اور تبادلے کا ہی پوچھا۔ میں نے بتایا: “سر! بین لگا ہے۔ جیسے ہی بین لفٹ ہو گا تبادلہ کرا دوں گا。”

یہ صاحب کرسی سے اٹھے اور صاحب کے پیروں پر جھک گئے۔ صاحب نے حیرانی میں انہیں ایک طرف کرتے کہا: “بٹ صاحب یہ کیا کر رہے ہیں؟” کہنے لگا؛ “سر! تبادلے دی بڑی مجبوری اے۔ مہر بانی کر دیو।” مہر بانی تو کر دی۔ ان کے جانے کے بعد صاحب نے پوچھا؛ “شہزاد صاحب! یہ کیا تھا؟” میں نے کہا؛ “سر! بٹ صاحب نے پچاس ہزار لیا ہو گا۔ اب واپسی کا تقاضا کیا گیا ہو گا تو یہ اس حد تک گر گیا۔” بات میری درست تھی۔ اپنی بیگم کی جگہ سارے کام یہی کرتا تھا۔

ایک یادگار رات

ایک رات صاحب اور میں اسلام آباد سے واپس پنڈی آ رہے تھے کہ راستے میں چیف الیکشن کمشنر جسٹس عبدالحمید ڈوگر (بعد میں یہ چیف جسٹس آف پاکستان بھی رہے) کا فون آیا، وہ کسی کو ٹی او آر روالپنڈی لگوانے کے خواہش مند تھے۔ اگلے ہی روز ان کی خواہش آنر کر دی گئی تھی۔ ہم کسی بھی عہدے پر پہنچ جائیں ٹرانسفر پوسٹنگ میں دخل اندازی کو حق سمجھتے ہیں۔ یہی بیڈ گورننس کا آغاز ہے۔ (جاری ہے)

نوٹ

یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...