پروفیسر علی ارشد میر ، پنجابی زبان کا وہ چراغ جو سرحدوں سے ماورا ہے

تحریر: وارث پراچہ

پروفیسر علی ارشد میر کا تعارف

پنجابی زبان کی خوشبو جب بھی تاریخ کے دامن میں بسی، اس میں چند ایسے ناموں نے ہمیشہ کے لیے اپنا رنگ چھوڑا جن کی تخلیقی روشنی نہ صرف پاکستان بلکہ پورے برصغیر میں پھیلی۔ انہی درخشاں ستاروں میں سے ایک نام پروفیسر علی ارشد میر کا ہے، جو نہ صرف پنجابی ادب کے معتبر شاعر تھے بلکہ ایک عہد ساز استاد، محقق اور فکری رہنما بھی تھے۔

علی ارشد میر کی شاعری کی خصوصیات

ان کا شعری جہان اتنا وسیع، عمیق اور فکری طور پر مضبوط ہے کہ بیرون ملک میں آپ کی شاعری نصاب کا حصہ ہے۔ علی ارشد میر ہی تھے جو 2004-2005 میں جب سرکاری وفد کے ہمراہ بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی دعوت پر گئے، تو ان کی شاعری اور تاریخ پر گرفت نے سرجیت پاتر جیسی شخصیت کو بھی متاثر کیا۔ فلسفہ، دیو مالا اور عوامی تاریخ ہاتھ جوڑے سقراط کے قبیل کے اس استاد کے آگے حیرت میں رہے؛ وہ تو وقت کو خود ہانکتے ہوئے کہتا ہے:

لنگھ اوۖ سمیا لنگھ

یہ حقیقت اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی شاعری سرحدوں کو نہیں مانتی، بلکہ دلوں کو جوڑتی ہے۔

فکری گہرائی اور لسانی طاقت

علی ارشد میر کی شاعری میں جو چیز سب سے زیادہ نمایاں ہے وہ ان کی فکری گہرائی اور لسانی طاقت ہے۔ وہ صرف الفاظ کے شاعر نہیں تھے، بلکہ جذبوں کے معمار، درد کے مورخ اور سچائی کے علمبردار تھے:

سد پہاڑوں آئی کڑیئے
سد پہاڑوں آئی
ساڈی کھیسی وچوں پھٹسی
سورج دی رشنائی کڑیئے

ان کی شاعری میں ہمیں انسان، محبت، مزاحمت، اور مٹی کی خوشبو ساتھ ساتھ چلتی محسوس ہوتی ہے۔ ان کے ہاں زبان محض اظہار کا ذریعہ نہیں، بلکہ شناخت اور مزاحمت کی علامت ہے۔

لسانی خزانہ اور فکری تحریک

ان کی پنجابی زبان پر ایسی گرفت تھی کہ مشکل ترین الفاظ اور محاورات بھی ان کے شعر میں آ کر موسیقی بن جاتے۔ وہ روایتی پنجابی کے ساتھ ساتھ قدیم لہجوں اور علاقائی محاورات کو بھی زندہ کرتے، جنہیں جدید پنجابی شاعری میں شاذ و نادر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض ناقدین ان کی شاعری کو "لسانی خزانے کی تجدید" قرار دیتے ہیں۔

علی ارشد میر کی شاعری صرف حسنِ بیان کا نمونہ نہیں بلکہ ایک فکری تحریک ہے۔ وہ زندگی کے عام مظاہر میں فلسفہ تلاش کرتے اور معاشرتی تضادات پر کھل کر لکھتے تھے۔ ان کی نظموں میں محنت کش طبقے، انسانی برابری، اور روحانی آزادی جیسے موضوعات نمایاں ہیں۔

معاشرتی تبدیلی کی آواز

ان کے ابتدائی دور میں ستر کی دہائی میں لکھے ترانے آج بھی جہاں پاکستان میں عام آدمی اور مزدور تحریک کی تاریخی دستاویز ہیں، وہاں ہر دور میں مزاحمت کا نعرہ لگانے والے مفاد پرست سیاسی اکابرین و اشرافیہ نہ چاہتے ہوئے بھی علی ارشد میر کے ترانوں سے ہمت کا ایندھن حسب توفیق کشید کرتے ہیں:

گرتی ہوئی دیواروں کو
ایک دھکا اور دو

لکھ حاکم ڈاڈھے نیں
پر خلقت اج نہ ڈردی

استاد کی حیثیت

ان کے ہاں عشق صرف رومانوی جذبہ نہیں، بلکہ انسانی مزاحمت کا استعارہ ہے۔ ان کے کئی اشعار آج بھی نوجوانوں کے دلوں میں ایک بیداری کی لہر پیدا کرتے ہیں۔ پروفیسر علی ارشد میر ایک نامور استاد بھی تھے۔ انہوں نے ملک کے طول و عرض میں مختلف اداروں میں پنجابی زبان و ادب پڑھایا۔ وہ صرف کتابی علم دینے والے استاد نہیں تھے بلکہ اپنے طلبہ میں سوچنے اور سوال اٹھانے کا حوصلہ پیدا کرتے تھے۔ ان کی کلاسز میں ادب، تاریخ، اور سماج ایک ساتھ سانس لیتے تھے۔

تحقیقی خدمات

ان کی تحقیقی خدمات بھی کم نہیں۔ انہوں نے پنجابی شاعری کے لسانی ارتقاء اور عوامی شاعری کی جڑوں پر گہری تحقیق کی۔ یہی وہ علمی بنیاد ہے جس نے انہیں ایک مکمل فکری استاد بنا دیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان کی شاعری نے صرف پاکستانی پنجاب میں ہی نہیں بلکہ بھارتی پنجاب میں بھی بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔

ادبی کامیابی

ان کی تخلیقات پر وہاں کے ادیب اور محقق لکھتے ہیں، اور اب ان پر بھارتی یونیورسٹی میں مقالے لکھے جا رہے ہیں۔ یہ کسی بھی شاعر کے لیے ایک بڑی ادبی کامیابی ہے کہ وہ سرحدوں سے اوپر اٹھ کر دو قوموں کے دلوں میں جگہ بنائے۔ بھارتی پنجابی نقادوں کے مطابق، علی ارشد میر کی شاعری "جدید پنجابی روح" کی نمائندہ ہے، جو ایک طرف روایت سے جڑی ہے اور دوسری طرف جدید فکر کی جانب بڑھتی ہے۔

انسان دوستی کا پیغام

ان کی شاعری میں انسان دوستی اور بین المذاہب ہم آہنگی کا گہرا پیغام موجود ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ادب کا مقصد نفرت نہیں، بلکہ محبت کو عام کرنا ہے۔ ان کے نزدیک پنجابی زبان ایک ثقافتی پل ہے جو لاہور سے امرتسر، فیصل آباد سے لدھیانہ، اور قصور سے پٹیالہ تک لوگوں کے دلوں کو جوڑتی ہے.

اختتام

ان کا ماننا تھا کہ اگر سیاست نے دیواریں کھڑی کی ہیں تو ادب ہی ان دیواروں کو گرائے گا۔ حالیہ تاریخ میں پنجابی زبان کا ایسا نام جس کے نام پر دو دہائیوں کے لگ بھگ میر پنجابی میلہ پنجاب کے میلوں کا نمایاں حصہ ہے۔ پروفیسر علی ارشد میر کی شخصیت ایک عہد کا استعارہ ہے۔ وہ صرف شاعر نہیں بلکہ ایک نظریہ تھے — ایک ایسی آواز جو آج بھی پنجابی ادب کے ہر سنجیدہ قاری کے دل میں گونجتی ہے۔ ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں، جو لفظوں سے تہذیب بناتے ہیں اور خیال سے قوموں کو روشنی دیتے ہیں۔ اختتام میں یہی کہوں گا میراں دے میر علی ارشد میر کو خراج تحسین۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Categories: بلاگ

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...