سپریم کورٹ نے بیوی پر کسی بھی قسم کے گھریلو تشدد اور خلع سے متعلق درخواست پر اہم فیصلہ سنادیا
سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ آف پاکستان نے بیوی پر کسی بھی قسم کے گھریلو تشدد اور خلع سے متعلق درخواست پر اہم فیصلہ سنادیا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق، سپریم کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک نے سترہ صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا جس میں پشاور ہائی کورٹ اور فیملی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
یہ بھی پڑھیں: لائیو سٹاک فیڈ کی خریداری کے لیے سود سے پاک قرضے فراہم کر رہے ہیں: صوبائی وزیر سید عاشق حسین کرمانی کا ورکشاپ سے خطاب
عورت کی مرضی کی اہمیت
سپریم کورٹ نے اپنے تحریری فیصلے میں لکھا کہ عورت کی مرضی کے بغیر عدالت خلع نہیں دے سکتی۔ ازدواجی زندگی میں نفسیاتی اذیت جسمانی تشدد جتنی سنگین ہے۔ شوہر کی اجازت کے بغیر دوسری شادی تنسیخِ نکاح کے لیے جائز بنیاد ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا قومی اسمبلی میں 27 ویں آئینی ترمیم کے عمل کا حصہ نہ بننے کا اعلان
عدالت کے لیے رہنمائی
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ عدالتوں کو خواتین سے متعلق محتاط الفاظ استعمال کرنے چاہئیں جبکہ پارلیمنٹ نے ظلم کی تعریف قانون میں بیان کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ عدالتوں کو گنجائش حاصل ہے کہ وہ ظلم کی مختلف صورتوں کو پہچان سکیں اور انصاف کر سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹر عارفہ زہرا کی سماجی اور تعلیمی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی: وزیر اعلیٰ پنجاب
ظلم کی تعریف میں وسعت
سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ ظلم صرف جسمانی نقصان تک محدود نہیں ہے، بلکہ ایسا طرزِ عمل جو ذہنی یا جذباتی اذیت پہنچائے، وہ بھی ظلم کے زمرے میں آتا ہے۔ عدالتوں نے ظلم کو ایسے رویے کے طور پر بیان کیا ہے جو جسمانی تشدد تک محدود نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی ایبٹ آباد کے مقامی رہنما موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ سے زخمی
ذہنی اذیت اور دیگر عوامل
جسٹس عائشہ ملک نے فیصلے میں لکھا کہ ظلم میں ذہنی اذیت دینا، گالم گلوچ کرنا یا جھوٹے الزامات لگانا بھی شامل ہے۔ اگر اثرات تکلیف دہ اور شدید ہوں تو یہ ظلم کہلائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: ذوالحج کا چاند دیکھنے کے لیے رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس آج ہوگا
بین الاقوامی قوانین
انٹرنیشنل کنویننٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس جسمانی اذیت اور ظالمانہ سلوک کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کمیٹی نے بھی اسے گھریلو ظلم کی شکار شادیوں پر لاگو کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آسٹریلیا کا 16 سال سے کم عمر بچوں پر یوٹیوب کے استعمال پر پابندی کا اعلان
درخواست کی منظوری
عدالت نے خاتون کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے فیملی کورٹ اور ایپلٹ کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ نکاح کو اس بنیاد پر ختم کیا گیا کہ دوسری شادی ہوئی، لہٰذا بیوی کو اپنا مہر واپس کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
خاتون کی جانب سے دائر درخواست
درخواست گزار خاتون کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ جج فیملی کورٹ نے درخواست گزار خاتون کی باتوں اور دلائل کو نظر انداز کیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی وضاحت کی گئی کہ خاتون کی رضامندی کے بغیر خلع کا حکم دیا گیا۔








