میں ایسا ہی تھا۔کھرا، سچا اور کچھ اکھڑ، کچھ بیوقوف،لفافہ دینے کی کوشش میں خوب بے عزتی کرائی”تمھیں کوئی غلط فہمی ہے کہ یہ سب کچھ پیسے کیلئے تھا“
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 333
ڈی جی لوکل گورنمنٹ کا حکم
ایک روز میں گھر سے اسمبلی جانے کے لئے نکلا تو مجھے ڈی جی لوکل گورنمنٹ کرنل شہباز کا فون آیا بولے؛ “ذرا مجھے مل کر دفتر جانا۔“ میں ان کے پاس گیا تو مجھے کہنے لگے؛ “شہزاد! کل میٹنگ میں شیخوپورہ کے اسسٹنٹ انجینئر ندیم اسلم نے میرے ساتھ بدتمیزی کی تھی۔ میں نے اسے معطل کر دیا ہے۔ سنا ہے وہ بحالی کے لئے کچھ ایم پی ایز کے ساتھ راجہ صاحب کو ملنے آ رہا ہے، اگر وہ بحال ہوا تو میرے لئے بڑی شرمندگی کی بات ہو گی۔“ انہوں نے چٹ پر مجھے اس کا نام لکھ دیا۔ ندیم اسلم۔ میں اسمبلی چلا آیا۔
رائے اعجاز کا اقدام
تھوڑی دیر میں رائے اعجاز دو تین ایم پی اے کے ہمراہ صاحب سے ملے اور ان سے کسی معاملے پر آرڈرز کروا کر چٹ مجھے دیتے ہوئے رائے اعجاز نے کہا؛ “شہزاد صاحب! بھائی جان (وہ صاحب کو بھائی جان کہتے تھے) نے اوکے کر دیا ہے۔ اس بندے نوں بحال کرا کے آرڈرز تے منگوا لو۔ وقفے چے آ کر لیجانواں گا۔“ میں نے چٹ دیکھی تو یہ وہی نام تھا، ندیم اسلم۔ خیر میں نے رائے صاحب سے کہا؛ “ٹھیک ہے۔“
بات چیت اور موقف
وقفے میں وہ میرے پاس آئے اور مجھ سے پوچھا؛ “آرڈرز ہو گئے۔“ میں نے جواب دیا؛ “سر! یہ آرڈرز نہیں ہو سکتے۔“ وہ بولے بھائی جان نے تو لکھ دیا تھا۔“ میں نے جواب دیا؛ “سر! بھائی جان کو نہیں پتہ کہ یہ کیوں معطل ہوا تھا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی ماتحت ڈی جی سے بدتمیزی کرے اور یوں بحال ہونے کا مطلب ہو گا کہ او ڈی جی بس اینی تیری افسری سی۔ رائے صاحب یہ بحال تبھی ہو گا جب تک ڈی جی سے معافی نہیں مانگے گا اور ڈی جی کہیں گے کہ اسے بحال کر دو۔“
صاحبانہ رویہ
رائے اعجاز کے ساتھ دوسرے ایم پی اے بولے؛ “رائے صاحب! شہزاد غصے میں ہے بعد میں آ کر بات کرتے ہیں۔“ رائے اعجاز نے جاتے وقت مجھے کہا؛ “شہزاد صاحب، ندیم اسلم بڑا تابعدار ہے کل آپ کو مل لے گا۔“ مجھے پتہ نہیں تھا کہ صاحب بھی آ چکے تھے اور ہماری گفتگو سن رہے تھے۔ وہ چلے گئے تو صاحب نے مجھے بلایا کہنے لگے؛ “کس سے ناراض ہو رہے تھے آپ۔“ میں نے انہیں ساری بات بتائی اور کہا؛ “سر! رائے اعجاز اس کی بحالی پر زور دے رہے ہیں۔“ کہنے لگے؛ “شہزاد صاحب! یہ تبھی بحال ہوگا جب ڈی جی آپ سے کہے گا۔ ڈی جی کو بتا دیں۔“ میں نے ڈی جی کرنل صاحب کو آگاہ کر دیا۔
ندیم اسلم کا مجبور کن پیشکش
اگلے دن ندیم اسلم (دو تین سال پہلے فوت ہو گیا۔ اللہ اس کے درجات بلند کرے۔ آمین۔) اسسٹنٹ انجینئر میرے پاس آیا اور اپنے تابعدار ہونے کے ثبوت میں مجھے ایک لفافہ دینے کی کوشش میں خوب بے عزتی کرائی۔ میں نے اسے کہا؛ “تمہیں کوئی غلط فہمی ہے کہ یہ سب کچھ پیسے کے لئے لیا تھا۔ تم جانتے ہوگے کہ میں پیسے نہیں لیتا۔ تم بدتمیزی کرکے بحال نہیں ہو سکتے۔ جب تک ڈی جی صاحب سے تحریری معافی نہیں مانگو گے میرے ہوتے تم بحال نہیں ہو سکتے۔“
صاحب سے بات چیت
اس سے ہوئی بات بھی میں نے صاحب کو بتا دی تھی۔ تھوڑی ہی دیر بعد رائے اعجاز آ گئے۔ میں نے انہیں بتا دیا کہ جس افسر کے آپ سفارشی ہیں اسے میں نے کیا جواب دیا ہے۔ وہ دوبارہ صاحب سے ملا تو صاحب نے جواب دیا؛ “رائے صاحب یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی ماتحت میرے ڈی جی سے بدتمیزی کرے اور اسے کوئی ایم پی اے بحال کرا لے۔ ناممکن۔ اس کی بحالی تبھی ہو گی جب یہ ڈی جی سے تحریری معافی مانگے گا اور ڈی جی لوکل گورنمنٹ لکھ کر ہمیں دے گا کہ اسے بحال کر دیا جائے۔“
نتیجہ
رائے اعجاز کے لئے یہ بڑی شرمندگی تھی جبکہ کرنل شہباز کی پیٹھ میں نے اللہ کے کرم سے لگنے نہیں دی تھی۔ میں ایسا ہی تھا۔ کھرا، سچا اور کچھ اکھڑ، کچھ بیوقوف۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب “بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








