لدھیانہ میں سردار موہن سنگھ ثقافتی میلے کی اختتامی تقریب میں شرکت کی، دس سے پندرہ ہزار افراد کا اجتماع تھا، بیرون ممالک سے آئے وفود شامل تھے
مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 201
لدھیانہ میں قیام
لدھیانہ میں قیام کے دوسرے روز ناشتہ کے بعد خواجہ محمد شریف چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے دوست سردار کیلی کے بلاوے اور ان کی دعوت پر ہم ان کے ہاں پہنچے۔ سردار کیلی ان کی بیگم اور ان کی 2 بیٹیوں ایک ڈینٹسٹ اور دوسری کالج گریڈیشن کی سٹوڈنٹ نے ریڈ کارپٹ، پاکستان کے جھنڈے اور پھولوں کی بارش کے ساتھ ہمارے وفد کا بڑی گرمجوشی سے استقبال کیا اور فروٹ جوسز، لنچ اور چائے کافی کے ساتھ بہت خاطر مدارات کی۔
سردار کیلی کی فیملی کا تعارف
سردار کیلی کی فیملی کا غائبانہ تعارف بھارت آنے سے بہت پہلے ہمارے دوست اْس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ خواجہ محمد شریف اور ظفر علی راجا میرے ساتھ کئی ملاقاتوں میں کروا چکے تھے وہ ہمارے وفد کے ساتھ لدھیانہ آنا چاہتے تھے۔ ان کا ویزہ بھی ہمارے وفد کے ساتھ ہی بن کر آچکا تھا لیکن ان کی ہائی کورٹ میں آفیشل مصروفیات آڑے آئیں اور ایسا ممکن نہ ہوا چنانچہ انہوں نے مجھے ہدایت کی تھی کہ ہم ان کے دوست سردار کیلی فیملی سے لدھیانہ میں ضرور ملنے جائیں۔
ملاقات کا وقت
سردار کیلی کے گھر ان کے دوست صدر سٹیزن کونسل لدھیانہ جناب سردار جگ موہن سنگھ سے 1 گھنٹے کی ملاقات 11 تا 12 بجے صبح خوب رہی۔ انہوں نے ہمیں بتایاکہ سٹیزن کونسل کے تحت وہ لدھیانہ میں ہندوؤں اور سکھوں کے درمیان امن، صلح و آشتی کے تعلقات کو فروغ دینے کے لیے کام کرتے ہیں۔
ثقافتی میلے کی اختتامی تقریب
ہم نے لدھیانہ میں اپنے قیام کے تیسرے روز 20 اکتوبرکو سردار موہن سنگھ ثقافتی میلے کی اختتامی تقریب میں شرکت کی۔ یہ دس سے پندرہ ہزار افراد کا اجتماع عظیم تھا جس میں بھارت کے دیگر شہروں اور بیرون ممالک سے آئے وفود شامل تھے جو مرحوم سردار موہن سنگھ جیسے اعلیٰ پائے کے شاعر، ادیب، صحافی اور دانشور کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہر سال اس ثقافتی میلے میں شرکت کرتے ہیں۔
خطاب کا موقع
راقم نے پاکستانی وفد کے قائد کی حیثیت سے اس عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ راولپنڈی پاکستان کے گاؤں دھمیال میں پیدا ہونے والے پروفیسر موہن سنگھ کا نام جدید پنجابی شاعری کے معماروں میں ہوتا ہے جنہوں نے پنجابی شاعری کو جدتِ فکر سے آراستہ کیا اور اسے برصغیر کے ایک مخصوص خطہ پنجاب سے نکال کر بین الاقوامی معیار تک پہنچا دیا ہے۔
اجتماع میں پروفیسر موہن سنگھ کا ذکر
پروفیسر موہن سنگھ نے پنجابی شاعری کو جدید بنانے کے ساتھ ساتھ اظہار کے امکانات کو وسیع تر کرنے کے لیے اس میں اردو، عربی، فارسی اور پوٹھوہاری الفاظ کو اس مہارت سے متعارف کروایا ہے کہ پنجابی زبان کا دامن وسیع تر ہوتا چلا گیا ہے۔ ان کی شاعری کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری عشقیہ جذبات یا صوفیانہ خیالات تک محدود نہیں ہے بلکہ انہوں نے نت نئے زندہ انسانی موضوعات کو چھوتے ہوئے انسانی رشتوں کی خوبصورت تصویر کشی کی ہے۔
خصوصی نظمیں
ان کی نظم "ماں" طویل نظم "بچہ" "تیسری"،"اَنّھی کْڑی" اور "میں نہیں رہنا تیرے گراں" ایسی شاہکار نظمیں ہیں جو ہندوستان، پاکستان کی سرحدوں سے باہر دور دور تک اپنی اثر پذیری اور خیال کے انوکھے پن کی وجہ سے کامیابی اور ابلاغ کے جھنڈے گاڑ چکی ہیں۔
بچے جیہا میوہ نہ ڈِٹھا
جتنا کچا اتنا مٹھا
(جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








