ہم نے ”سہارا“ دیا اور دھوکا کھایا،طالبان امن نہیں مودی کی ”بھاشا“ بولیں گے، پاکستان نے مذاکرات کر لیے، اب مذمت نہیں ’’مرمت‘‘ کی ضرورت ہے

بھارت کا اثر و رسوخ

بھارت کابل میں سرایت کر چکا ہے۔ معاملہ مذمت سے آگے جا چکا ہے۔ اب مرمت کی ضرورت ہے۔ مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں۔ نئی دہلی میں جشن کا سماں ہے۔ طالبان نے "حقِ نمک" ادا کر دیا ہے اور اب وہ امن کی نہیں، مودی کی "بھاشا" بولیں گے۔ یہ کبھی بھی ہمارے نہیں تھے۔ پاکستان صرف یہ "تسلیم" کر لے۔ ماضی سے سیکھو، اس بار تاریخ نہ دہراؤ بلکہ بدل کے رکھ دو۔ اہل پاکستان کو "قابل قبول" نہیں بلکہ "مستقل حل" چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب کے ساتھ معاہدہ خوشگوار سرپرائز، مجھے نہیں لگتا 27 ستمبر کو پی ٹی آئی کا جلسہ کامیاب ہوگا، احتجاج کی حکمت عملی کہاں گئی؟ شیر افضل مروت

افغانستان میں سیاسی تبدیلی

ماضی قریب کی بات ہے۔ امریکی فوج کے مکمل انخلا سے صرف 2 ہفتے قبل، 15 اگست 2021ء کو طالبان نے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ 9 ستمبر 2001ء (نائن الیون) کے بعد سے افغانستان میں جاری جنگ کا خاتمہ ہوا، لیکن یہ ہمارے لیے نیا مسئلہ کھڑا کر گیا۔ امریکہ 7 ارب ڈالرز سے زائد کا اسلحہ افغانستان میں چھوڑ گیا، اور طالبان نے یہ "اسلحہ" بیچنا شروع کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں: جے یو آئی اور ہماری جنرل سیٹیں برابر تو مخصوص نشستیں کیوں نہیں؟ن لیگ کے وکیل کے الیکشن کمیشن میں دلائل

پاکستان کی سٹریٹجی

اُدھر (افغانستان) طالبان آئے تو اِدھر (پاکستان) والے طالبان بھی "خوش" ہو گئے۔ ہم نے بڑی مشکل سے دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی تھی، لیکن ایک بار پھر "تاریخی غلطی" دہرائی۔ اُدھر جا کر چائے پی، یہاں اُن کے قیام و طعام کا "بندوبست" کر دیا۔ پھر آنا جانا اور میل ملاپ شروع ہو گیا۔ ہماری نیت صاف تھی، لیکن وہاں کھوٹ تھا۔ ہم نے ایک بار پھر "سہارا" دیا اور دھوکا کھایا۔

یہ بھی پڑھیں: مغوی رکن اسمبلی شدید زخمی حالت میں کھیتوں سے مل گیا، حالت تشویشناک

افغان طالبان کے مذاکرات

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک پاکستان "دھوکے پہ دھوکا" کھاتا رہے گا؟ طالبان "ایک" ہیں۔ حالیہ کشیدگی کے بعد پاکستان نے افغان طالبان سے 18 اکتوبر کو قطر میں مذاکرات کیے۔ عارضی جنگ بندی پر راضی نامہ ہوا اور 25 اکتوبر کو ترکی میں دوبارہ ملنے پر اتفاق ہوا۔ استنبول میں 4 دن "برادر اسلامی ملک" کے ساتھ بات چیت چلتی رہی۔ 29 اکتوبر کی صبح وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ "جنگی معیشت پر پروان چڑھنے والی طالبان حکومت افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں گھسیٹنا چاہتی ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے ناقابل تردید شواہد فراہم کیے، جن کا اعتراف افغان طالبان اور مذاکرات کروانے والے میزبان ممالک نے کیا، تاہم افغان فریق اس بنیادی مسئلے سے انحراف کرتے رہے اور کوئی بھی "قابل عمل حل" نہیں نکل سکا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان ہمارا دوسرا گھر، بہت عزت اور پیار ملتا ہے: سکھ یاتری

آگے کا راستہ

ان مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنا تھا۔ افغانستان میں "قبضے" کی حکومت ہے۔ قابض لوگ عوام کی "خواہشات" نہیں، بلکہ اپنے "مفادات" کے اسیر ہوتے ہیں۔ اس وقت افغان طالبان کا مفاد پاکستان سے نہیں، بلکہ بھارت سے جڑا ہے۔ امریکی اسلحہ موجود ہے، نئی دہلی سے "مال پانی" کی فراوانی ہے۔ ایسے میں "اچھے اچھوں" کی آنکھیں "چندیا" جاتی ہیں۔ ان کو اب پاکستان کی ضرورت نہیں۔ لڑائی اُن کا "مشغلہ" ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاک بحریہ کی کمانڈ اینڈ سٹاف کانفرنس، خطے میں بدلتی سمندری صورتحال ،قومی سلامتی اورجنگی تیاریوں سے متعلق امور پر تبادلۂ خیال

پاکستان کی حکمت عملی

اپنے گھر میں "وہ" لڑائی نہیں لڑنا چاہتے۔ افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت تحریک طالبان پاکستان کو اپنا نظریاتی اتحادی سمجھتی ہے۔ 80 کی دہائی اور 90 کی دہائی سے ان کے "قریبی تعلقات" ہیں۔ ایسے موقع پر اگر افغان رجیم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی کرتا ہے تو وہ ناراض ہو سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: قصبہ میمفس فرعونوں کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا، پانی بھرے کھیتوں اور کھجوروں کے جھنڈ میں تیرتے نظر آتے یہ کھنڈرات پراسرار منظر پیش کر رہے تھے.

حکومت کی پوزیشن

اس وقت صورتحال بگڑ رہی ہے۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا، "بھارت پاکستان کو ایک چھوٹے پیمانے کی جنگ میں ملوث رکھنا چاہتا ہے اور کابل اس مقصد کو عملی جامہ پہنا رہا ہے۔" مذاکرات کے دوران افغان وفد کے ساتھ 5 مرتبہ اتفاق ہوا، مگر کابل سے ملنے والی ہدایات کے بعد انہوں نے اپنی لاچاری کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: دو نہریں سندھ، دو پنجاب اور ایک بلوچستان میں بننی ہے: معین وٹو کا انکشاف

اختتام

اب نہ زبانی اور نہ ہی تحریری ضمانت کی کوئی اہمیت ہے۔ "منافقت" کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ "وہ" لاچار نہیں، بلکہ "مکار" ہیں۔ حکومتِ پاکستان کے بقول اُس نے ایک "گروہ" اور "جتھے" سے مذاکرات کر کے "شوق" پورا کر لیا۔ حالانکہ مذاکرات تو "برابری" کی سطح پر ہوتے ہیں۔

نوٹ

نوٹ: ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Categories: بلاگ

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...