گاڑی اب چپ چاپ گزر جاتی تھی، سیٹی بھی بجاتی ہو گی لیکن گاؤں کی حد تک سنائی نہیں دیتی، چند مسافروں کا کچھ لین دین ہوتا پھر وہی کھیل شروع ہو جاتا
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 293
صبح سویرے فجر کی اذان سے ذرا پہلے، دور کہیں ریل گاڑی کی ایک افسردہ سی سیٹی بجتی تھی۔ ہر چند کہ ہمارا گاؤں قریبی ریلوے اسٹیشن سے کافی فاصلے پر تھا، پھر بھی صبح کاذب کے وقت گاؤں کے اس خاموش سے ماحول میں اداس سیٹی اور انجن کی گھڑگھڑاہٹ کی بھولی بھٹکی سی صدا صاف سنائی دیتی تھی۔ ایک لمحے کو آنکھ کھلتی تھی، کچھ درد سا دل میں ہوتا تھا اور پھر گاڑی کے آگے بڑھ جانے پر آہستہ آہستہ معدوم ہو جانے والی آواز کے ساتھ ہی نیند بھی دوبارہ آن لیتی تھی۔ اور جو کسی روز اس سیٹی کی آواز نہیں آتی، تو وہ ایک بڑی ہی اداس صبح ہوتی تھی، اور ایسا لگتا تھا جیسے کہیں کسی شے کی کمی سی رہ گئی ہے۔
اداس سیٹی کی گونج
جانے کس کی آس لگی ہے جانے کس کو آنا ہے، کوئی ریل کی سیٹی سن کر سوتے سے اٹھ جاتا ہے۔ یہ ہمارے دیہاتی علاقے میں چلنے والی ریل گاڑی تھی، جو میرے گاؤں سے 8 کلومیٹر دور بنے ہوئے ہالٹ پر آ کر لمحے بھر کو ٹھہرتی تھی۔ وہاں کوئی پلیٹ فارم نہیں تھا، گاڑی ریت میں ہی پھنکاریں مارتی ہوئی آتی، ریت میں ہی کھڑی ہوتی اور پھر ریت میں سے ہی گزرتی ہوئی آگے بڑھ جاتی تھی۔ وہ کوئی 15 کلومیٹر کا مزید سفر طے کرتی اور اپنی مسافت کے آخری پڑاؤ یعنی فورٹ عباس اسٹیشن پر پہنچ کر عارضی طور پر اپنا سفر موقوف کر دیتی تھی۔
فورٹ عباس اسٹیشن کا منظر
وہاں یہ گاڑی ایک آدھ گھنٹہ ٹھہرا کرتی تھی۔ اس دوران انجن گاڑی سے جدا ہو کر آگے نکل جاتا۔ فورٹ عباس اس لائن پر آخری اسٹیشن تھا، اس لیے وہاں پہنچ کر انجن اپنی واپسی کے لیے اپنا رخ بدلتا، پانی لیتا، نہا دھو کر ترو تازہ ہوتا اور پھر چپ چاپ الٹے قدموں واپس آ کر گاڑی کے اس ڈبے کے آگے لگ جاتا جو آتے وقت سب سے پیچھے ہوتا تھا لیکن اس الٹ پھیر کے باعث اب وہ گاڑی کا سب سے معتبر ڈبہ ٹھہرتا۔ گاڑی کی آمد اور روانگی پر یہاں بہت ہلچل مچی رہتی تھی۔ کم معیار کا ہی سہی لیکن وہ ہی ماحول بن جاتا تھا جو مین لائن کے ایک عام سے اسٹیشن پر ہوا کرتا تھا۔
دیگر سفری سہولیات کی عدم دستیابی
بسیں ویگنیں تو درکنار یہاں ان کے لیے کچی سڑک تک بھی موجود نہیں تھی، اس لیے کہ اس علاقے میں صرف ریل کی ہی اجارہ داری تھی۔ پندرہ بیس کلو میٹر کا سفر ہوتا تو وہ اونٹوں یا سائیکلوں پر کر لیا جاتا تھا، لیکن طویل سفر کے لیے گاڑی کا کوئی متبادل موجود نہیں تھا۔ اس لیے پلیٹ فارم مسافروں سے کھچا کھچ بھرا رہتا تھا۔ یہاں ایک بڑی غلہ منڈی بھی ہے اور کپاس کے دنوں میں تو اس کا لین دین عروج پر تھا۔
گاڑی کا واپسی سفر
مقررہ وقت پر انجن دو تین سیٹیاں بجاتا، سٹیم خارج ہونے کی خوفناک آواز آتی اور وہ ایک بار پھر واپسی کا سفر اختیار کر لیتا تھا، اور ان ہی راستوں سے گزر کر بہاول نگر جنکشن ہوتا ہوا سمہ سٹہ کی طرف روانہ ہو جاتا جہاں سے وہ اس طرف کو آیا تھا۔ لیکن اب دن چڑھ چکا ہوتا تھا، اور ہر طرف روزمرہ کی سرگرمیاں شروع ہو جاتی تھیں، اس لیے یہ گاڑی اب چپ چاپ ہی وہاں سے گزر جاتی تھی، یقیناً یہ سیٹی بھی بجاتی ہو گی لیکن گاؤں کی حد تک وہ ہمیں سنائی نہیں دیتی تھی۔
دوپہر کی گاڑی
بالکل اسی طرح تپتی دوپہر میں 12 بجے ایک اور گاڑی آتی تھی اور چند مسافروں کا کچھ لین دین ہوتا اور ایک بار پھر وہی کھیل شروع ہو جاتا تھا، یعنی وہ بھی فورٹ عباس اسٹیشن کو ہاتھ لگا کر واپس چلی جاتی۔
کتاب کی اشاعت
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








