پہلی دفعہ بھاپ کے انجن اور گاڑی کو دیکھا، خوفزدہ ہو گیا کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر بھاگ کھڑا ہوا، کافی دور جا کر شتر مرغ کی طرح سر جھکا کر ریت پر بیٹھ گیا
پہلا تجربہ
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 294
یہی وہ پٹری ہے جہاں میں نے پانچ سال کی عمر میں پہلی دفعہ بھاپ کے انجن اور گاڑی کو دیکھا تھا۔ میں اپنے ابا جان کو لینے اس ہالٹ پر آیا تھا جو کراچی سے 3 گاڑیاں بدل کر اور کوئی 2 دن مسلسل سفر کر کے یہاں پہنچے تھے۔ جب گردو و غبار اڑاتی ریل گاڑی اُس ہالٹ پر پہنچی تو میں اس قدر خوفزدہ ہو گیا کہ کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا اور پھر کافی دور جا کر شتر مرغ کی طرح سر جھکا کر ریت پر ہی بیٹھ گیا۔ آپ صرف اس وقت اٹھا جب یقین ہو گیا کہ وہ کالا جناتی انجن گاڑی کو لے کر آگے فورٹ عباس کی طرف نکل گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان سے ملاقات کا معاملہ، بیرسٹر گوہراور سلمان اکرم کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ
مناظر اور ماحول
یہ علاقہ ابھی پوری طرح آباد نہیں ہوا تھا، اس لیے ہر طرف ریت کی چادر ہی بچھی رہتی تھی۔ شدید آندھیوں یا تیز ہوا کی وجہ سے جہاں یہ زیادہ مقدار میں جمع ہو جاتی تھی تو وہاں چھوٹے بڑے ریت کے ٹیلے بن جاتے تھے جن کو مقامی زبان میں ”ٹبہ“ کہتے تھے۔ ہمارے علاقے کو لگنے والا یہ چھوٹا سا ہالٹ بھی ایک ایسے ہی ٹیلے کے قریب قائم کیا گیا تھا، اسی مناسبت سے اس کا نام بھی ”ٹبہ عالمگیر“ پڑ گیا تھا۔ اب اللہ جانتا ہے یہ عالمگیر صاحب کون تھے، جو اس ٹبے کے آس پاس کہیں مقیم تھے، کم از کم مجھے تو کچھ علم نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ٹیرف کی جنگ: چین نے امریکا کی مزید18 کمپنیوں پر پابندی عائد کردی
ہالٹ کی کہانی
بعد میں سنا کہ اس ریلوے ہالٹ پر وہاں کے شہباز نامی کسی بندے نے اپنا دعویٰ کر دیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ٹبہ عالمگیر ہالٹ وہاں سے در بدر ہو کر چار پانچ کلومیٹر اور آگے چلا گیا اور وہاں اپنے نام کی تختی لگا کر بیٹھ گیا۔ خالی کئے جانے والے اسٹیشن پر نئے مکین نے ”شہباز والا“ کا بورڈ لگا کر اپنا قبضہ پکا کر لیا۔ سو تب سے یہ اسی نام سے جانا اور پکارا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا واقعی ایف بی آئی کے سابق ڈائریکٹر نے ٹرمپ کے قتل کی کال دی؟ 8647 کے میسج کا کیا مطلب ہے؟
ٹکٹوں کا انتظار
ہم اسٹیشن پر جانے کے لیے صبح سویرے گاؤں سے نکلتے اور سورج کے بلند ہونے سے قبل ہی اس ہالٹ سے کوئی 200 گز پہلے شیشم کے اکلوتے اور بڑے سے درخت کے نیچے پناہ لے لیتے جہاں اگلے چار گھنٹے تک بیٹھ کر ہم نے فورٹ عباس سے اس گاڑی کی واپسی کا انتظار کرنا ہوتا تھا، جو اس طرف جانے کے لیے ابھی آئی ہی نہیں ہوتی تھی۔ اور پھر جب یہ سمہ سٹہ کی طرف سے یہاں پہنچتی تو اپنا سفر مکمل کر کے اترنے والے مسافر بھی دن ڈھلنے کی آس میں کچھ وقت اس شجر سایہ دار تلے گزارنے آ جایا کرتے تھے، جو خود تو کڑکتی دھوپ میں جلتا رہتا تھا پر وہاں ہر آتے جاتے مسافروں کو کچھ دیر چھاؤں بخش کے سکون پہنچاتا تھا۔ اس کے علاوہ یہاں اگر کوئی اور سایہ دار جگہ تھی تو وہ اسٹیشن ماسٹر کا چھوٹا سا کمرہ ہی تھا۔
گاؤں کی مہمان نوازی
ہر چند کہ اسٹیشن سے کچھ ہی دور ایک گاؤں بھی بستا تھا مگر وہاں بھلا کون جاتا، حالانکہ وہاں کسی گھر کے چھپر یا درخت کے نیچے انہیں پناہ مل سکتی تھی اور تب ان دیہاتوں کے لوگ بھی اتنے مہمان نواز ہوتے تھے کہ وہ قریب سے گزرتے ہوئے مسافروں کو دو گھڑی آرام کرنے کا مشورہ اور لسی پانی یا کھانے کی دعوت ضرور دیا کرتے تھے۔ لیکن ہوتا کچھ یوں تھا کہ دوپہر والی ریل گاڑی کے منتظر سب ہی اسی شیشم تلے بیٹھ کر جلتی بلتی دوپہر کاٹنے کی کوشش کرتے تھے۔ ہاں، جب دور سے انجن کی چنگھاڑ اور مسلسل سیٹیوں کی آواز آنی شروع ہو جاتی تو سب لوگ آ کر ریل کی پٹری پر کھڑے ہو جاتے تھے۔ تب ہی اسٹیشن ماسٹر ٹکٹ والی کھڑکی کھولتا، دو چار منتظر مسافروں کو ٹکٹ دیتا اور پھر ہاتھ میں سبز جھنڈی لیے وہ بھی پٹری پر ہی آن کھڑا ہوتا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








