دور آتی جاتی گاڑی دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا جیسے پٹری پر سے اتر کر گہرے پانیوں میں داخل ہو گئی ہے اور اب لہروں سے لڑتی تیرتی سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 295
کچھ ہی دیر بعد، ریت پر بچھی ہوئی سورج کی گرمی سے دہکتی ہوئی پٹری پر یہ دیو ہیکل انجن آٹھ دس ڈبوں کو کھینچتا ہوا قریب آتا تو ہر طرف ایک شور مچ جاتا۔ ویسے تو موسم اور ماحول صاف ہونے اور پٹری کے بالکل خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کی وجہ سے یہ انجن میلوں دور سے نظر آ جاتا تھا، اور پھر جب وہ پچھلے اسٹیشن پر پہنچتا تھا تو اس کی آواز بھی واضح طور پر سنائی دینا شروع ہو جاتی تھی۔
ماموں زاد بھائی کی ماہرینگی
میرا ایک ماموں زاد بھائی تو آتی ہوئی گاڑی کا اتہ پتہ لگانے میں اتنا ماہر تھا کہ وہ اس کے پہنچنے سے آدھا گھنٹہ قبل ہی تپتی ریت پر لیٹ کر پٹری سے کان لگا کر کچھ سنتا اور فوراً ہی بڑے اعتماد کے ساتھ اپنی اس تحقیق کے نتائج کا اعلان بھی کر دیتا تھا۔ اس کا فلسفہ یہ تھا کہ پٹری کو کان لگا کر اگر غور سے سنا جائے تو وہاں سے جو کٹ کٹ کی آوازیں سنائی دیتی ہیں وہ اسے سب کچھ بتا دیتی تھیں۔
گاڑی کا پہنچنا
گاڑی آتی ہے مگر آتی ہی نہیں۔ ریل کی پٹری دیکھ کے تھک جاتا ہوں میں۔ انجن سیٹیاں بجاتا ہوا آہستگی سے اسٹیشن کی حدود میں داخل ہوتا، جہاں اسے نام نہاد اسٹیشن کی عمارت کے پاس ہی کھڑا ہونا ہوتا تھا۔
مسافروں کی افراتفری
اسٹیشن ماسٹر اور گاڑی کا عملہ، جو ان دنوں صرف تین افراد پر مشتمل ہوتا تھا، آپس میں دعا سلام کرتے۔ افرا تفری کے عالم میں وہاں اترنے والے مسافر پہلے اپنا سامان باہر ریت پر پھینکتے، خواتین اور بچوں کو نیچے اتارتے، اور جب آخر میں خود نیچے کودتے تو گاڑی اس وقت تک رینگنا شروع ہو چکی ہوتی تھی۔
غیر آباد علاقہ
اس وقت زیادہ تر علاقہ بری طرح غیر آباد تھا، اس لیے ہر طرف ریت ہی ریت اڑتی پھرتی تھی۔ دوپہر کو جب آگ اگلتا سورج سوا نیزے پر اتر آتا تھا تو ریت بھی شدید گرم ہو جاتی تھی۔ دور آتی یا جاتی ہوئی گاڑی کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ پٹری پر سے اتر کر کہیں گہرے پانیوں میں داخل ہو گئی ہے۔
سراب کا علم
بہت بعد میں جا کر علم ہوا کہ سائنس کے اس عمل کو سراب کہتے ہیں۔ اور پھر سعودی عرب میں ایسے سرابوں کے خوب نظارے دیکھے تھے، جہاں جلتے بلتے ریگستانوں میں میلوں دور تک لہریں لیتا ہوا سمندر نظر آتا تھا۔
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








