ابا جان فوج میں تھے، گاؤں آتے تو لینے اسٹیشن جایا کرتا، انجن سے ”مسلسل ملاقاتوں“ کے بعد خوفزدہ ہونا چھوڑ دیا، اب آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا
سٹیشن ماسٹر کی زندگی
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 296
گاڑی کی روانگی کے بعد سفر کر کے آنے والے مسافر اپنے گھروں کی راہ لیتے اور اسٹیشن ماسٹر ایک بار پھر اپنے چھوٹے سے دفتر میں کرسی پر گر کر پنکھا جھلانے لگتا۔ اب اسے اسی گاڑی کی واپسی تک وہیں انتظار کرنا ہوتا تھا جو کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے بعد فورٹ عباس اسٹیشن سے واپس یہاں پہنچتی تھی۔ اسٹیشن ماسٹر کا یہی معمول صبح سویرے آنے والی گاڑی کی آمد پر بھی ہوتا تھا جس کے لیے اسے منہ اندھیرے اٹھنا پڑتا تھا اور پھر کہیں دن چڑھے ہی وہ دفتری کام کاج اور اسی گاڑی کو واپس روانہ کر کے فارغ ہوتا تھا اور اسٹیشن کو تالا لگا کر قریبی گاؤں میں اپنی رہائش گاہ پر چلا جاتا تھا.
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا مشن نور، عمران ریاض، احمد نورانی، معید پیرزادہ، صابر شاکر، عادل راجہ نے اذان کیوں نہیں دی؟
بچہ اور باپ کی محبت
میرے ابا جان فوج میں تھے اور ان کی مستقل تعیناتی کراچی میں تھی۔ وہ جب بھی اپنی سالانہ تعطیلات پر گاؤں آتے تو میں اپنے ماموں کے ساتھ ان کو لینے کے لیے اسٹیشن پر جایا کرتا تھا اور پھر ان کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد جب انھیں واپس جانا ہوتا تھا تو تب بھی میں ضد کر کے اسٹیشن تک ان کے ساتھ ہو لیتا تھا۔ رخصت تو انھیں گھر سے بھی کیا جا سکتا تھا لیکن میں اسی بہانے ریل گاڑی کو بھی دیکھ آیا کرتا تھا۔ انجن سے ”اتنی مسلسل ملاقاتوں“ کے بعد میں نے اس سے خوفزدہ ہونا چھوڑ دیا تھا اور اب میں بہادر بچوں کی طرح بے خوف ہو کر وہیں کھڑا ہو کر انجن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے دیکھتا رہتا تھا.
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کے اس احتجا ج کا نتیجہ بھی پہلے جیسا ہوگا، طلال چودھری کا دعویٰ
انجن کا سحر
یہی وہ وقت تھا جب میں نے پہلے دفعہ کالے مگر اب خوبصورت لگنے والے اس انجن کو غور سے دیکھا اور پھر میں یک دم اس کے سحر میں مبتلا ہو گیا۔ جب یہ انجن میرے سامنے سے گزرتا تو میں اچھل اچھل کر اس کے اندر جھانکتا تو وہاں دو لوگ اس پھنکارتے ہوئے فولادی گھوڑے کی لگامیں تھامے ہوئے نظر آتے تھے، ان میں سے کھچڑی بالوں والے ایک بابا جی ڈرائیور اور دوسرا قدرے جوان فائرمین ہوتا تھا.
یہ بھی پڑھیں: سیمنٹ کی کم از کم ریٹیل قیمت مقرر، ایف بی آر نے کم از کم قیمت کا ایس آر او جاری کردیا
دوستوں کے ساتھ محبتیں
میں جب بھی انجن کے پاس کھڑا ہوتا تھا تو بابا جی میرے تجسس کو دیکھتے ہوئے ہاتھ ہلاتے اور پھر انجن کی بھاپ خارج کر کے اور سیٹی بجا کر دکھاتے تھے، اور جب میں گھبرا کر وہاں سے پیچھے ہٹتا تھا تو اتنے شور میں بھی ان کے قہقہے دور تک سنائی دیتے تھے۔ اور پھر گاڑی چلی جاتی تھی.
یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں مزید موسلادھار بارشوں کی پیش گوئی
پہلا سفر
کچھ عرصے بعد مجھے بھی خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ مستقل طور پر کراچی میں سکونت اختیار کرنے کے لیے جانا پڑا، تو میں نے اپنی زندگی کا پہلا سفر اسی گاڑی سے کیا تھا۔ سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے میرے ابا جان اور ہم سب کو انٹر کلاس کا پاس ملا تھا جس کی نشستوں پر گدے اور چھت پر پنکھے بھی لگے ہوئے تھے۔ اسی گاڑی میں فرسٹ اور سیکنڈ کلاس کے ڈبے بھی موجود تھے، جن کی کھڑکیوں پر لگے ہوئے گہرے نیلے پردوں کی وجہ سے اندر کا ماحول قدرے خنک اور صاف ستھرا لگتا تھا.
طبقاتی فرق کا احساس
دوسری انتہا پر تھرڈ کلاس کے ڈبے تھے جہاں یہ سب سہولتیں میسر نہیں تھیں۔ انٹر کلاس بیچ میں ہی کہیں رہا کرتا تھا، جس میں سفر کرنے والے جب اپنے سے اوپر کے درجہ والوں کو دیکھتے تو اپنے آپ کو تھوڑا کمتر سمجھنے لگتے اور جب نچلے درجہ کے مسافروں کو بھیڑبکریوں کی طرح ڈبوں میں بھرا ہوا دیکھتے تو ہم بچوں میں کچھ احساسِ تفاخر کا آ جانا ایک فطری عمل تھا.
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں.








