مروت کی انتہا تھی، صاحب اکثر کہتے ”ہم گوڑی سہلیاں ہیں جب تک ہم راز و نیاز نہ کر لیں چین نہیں آ تا“ دو پہر کو کھانا بھی اکثر اکٹھے ہی کھاتے
مصنف کی تفصیل
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 337
یہ بھی پڑھیں: استعفے کی کہانی کے کردار۔۔۔
کھانے کی روایات
صاحب اکثر کہتے ہیں "ہم گوڑی سہلیاں ہیں جب تک ہم راز و نیاز نہ کرلیں چین نہیں آتا۔" دو پہر کو کھانا بھی اکثر اکٹھے ہی کھاتے، کئی بار ایسا ہوا کہ ضروری کام کے لئے پانچ منٹ میں پہنچنے کا کہا گیا تو روٹ بھی لگوا دیا جاتا تاکہ ٹائم پر پہنچ سکیں۔ شروع میں چند اور وزراء بھی کھانے میں شامل ہوتے لیکن آخر میں صرف صاحب ہی رہ گئے۔ میں نے پوچھا تو کہنے لگے؛ "شہزاد صاحب! کھانے کا وقت ایسا ہوتا ہے کہ انسان سکون چاہتا ہے، کھانا سکون سے کھائے۔ یہ وزیر اس وقت بھی پٹواری، تھانے دار وغیرہ کے تبادلے کی بات کرتے تھے۔ تنگ آ کے سی ایم نے انہیں بلانا ہی چھوڑ دیا۔ میرے ساتھ وہ بہت comfortable محسوس کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے 1 ماہ میں کتنے ہزار مقدمات نمٹادیئے ۔۔؟تفصیلات سامنے آ گئیں
سی ایم کے پروٹوکول کا سفر
چند مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ سی ایم کے پورے پروٹوکول اور انہی کی سٹاف کار (یہ بلٹ پروف بی ایم ڈبلیو تھی) میں صاحب کو گھر چھوڑا جاتا تھا۔ دوسری طرف یہ عالم تھا کہ صاحب اپنی ذات کے لئے کبھی بھی سی ایم سے کوئی فیور نہ مانگتے تھے۔ حد تو یہ تھی کہ ہمارے پاس سرکاری گھر تک نہ تھا بلکہ صاحب اپنے ذاتی طفیل روڈ والے گھر پر ہی قیام پذیر تھے۔ میں نے کئی بار صاحب سے کہا؛ "سر! اپنے لئے گھر تو الاٹ کروالیں۔" جواب دیتے؛ "شہزاد صاحب! اچھا نہیں لگتا۔ سی ایم کیا کہے گا۔" مروت کی انتہا تھی۔
یہ بھی پڑھیں: افسران سے معافی کا طلبگار، CCDکے “سمجھانے” پر شہزاد حکیم کا سلامیوں سے اکٹھی کی گئی رقم سیلاب متاثرین کو دینے کا اعلان
مسلم لیگ(ق) کی ناکام پالیسیاں
پرویز الٰہی کے دور حکومت میں بہت سے اچھے کام ہوئے مگر مسلم لیگ(ق) کی حکومت نے لاہور شہر کی سیاست پر توجہ نہ دی۔ شاید وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ لاہور "شریفوں" کا ہی تھا، ہاری ہوئی سوچ کا عکاس تھی۔ میاں منیر کو لاہور مسلم لیگ(ق) کا صدر نامزد کرکے انہوں نے اپنی سیاسی ہار تسلیم کر لی تھی کہ جو شخص اپنے قومی اسمبلی کے حلقے سے صرف پانچ چھ ہزار ووٹ ہی حاصل کر سکا تھا، اسے ایک کروڑ آبادی کے شہر کی صدارت سونپنا ہار ہی تھی۔ کسی زیرک جہاندیدہ شخصیت کو یہ کام سونپ کر لاہور کی سیاست پر (ق) لیگ بہتر کارکردگی دکھا سکتی تھی۔ جیتتا وہی ہے جسے خود پر بھروسہ ہو۔
یہ بھی پڑھیں: ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعے) کا دن کیسا رہے گا ؟
بیگم صاحبہ کی اہمیت
پرویز الٰہی بیگم صاحبہ کی بھی بڑی عزت کرتے اور انہیں بڑی بہنوں کی طرح ہی چاہتے تھے۔ ایک روز ہم اہم میٹنگ میں 7 کلب روڈ (چیف منسٹر کا دفتر) تھے کہ بیگم صاحبہ اچانک چلی آئیں اور سیدھے سی ایم کو ملنے چلی گئیں۔ سبھی حیران تھے۔ بیگم صاحبہ نے سی ایم سے کہا؛ "پرویز! سارے کام بشارت کرے اور اسی کے پاس گھر نہیں۔ کمال ہے۔" وہ بولے؛ "راجہ صاحب تو ہاڈے کول گھر نئیں اے۔ بادشاہ او دسیا وی نئیں۔" ساتھ ہی جی ایم سکندر (سی ایم کے پرنسپل سیکرٹری اور قابل افسر تھے) سے کہا؛ "میٹنگ بعد چے کراں گے، راجہ نوں گھر الاٹ کرو تے جیڑا فرنیچر میں منگوایا اے او سارا اوتھے شفٹ کر دیو۔" صاحب کو 'پانچ ایکمین روڈ' (5 aikman road) جی او ون لاہور الاٹ ہو گیا جو دراصل ہائی کورٹ لاہور کی strength پر تھا۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








