لو جی اسی لوگ امرتسر میں پہنچ رہے ہیں۔۔۔ یہ انڈیا گیٹ کا علاقہ ہے

سفر کی ابتداء

مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 206

ہماری گاڑیاں امرتسر کی جانب روانہ ہوئیں تو ہم نے دائیں بائیں کے مناظر پر نظریں دوڑائیں۔ اچانک بھارت سے پاکستان کی جانب ٹرکوں کی ایک قطار آتی ہوئی دکھائی دی۔ ہم نے دیکھا کہ ان ٹرکوں پر کپاس کی بڑی بڑی گانٹھیں لدی ہوئی تھیں۔ گاڑی کے ڈرائیور نے ہماری طرف گردن گھما کر کہا کہ "ایہہ کپاہ تہاڈے دیس پاکستان نوں جاندی پئی اے"۔ کپاس کے یہ ٹرک دیکھ کر ہمیں 2007ء کا دورۂ بھارت یاد آ گیا۔ اس وقت انہی دنوں اس سڑک پر پچاس ساٹھ ٹرک کھڑے ہوئے دیکھے تھے جن پر ٹماٹروں کی پیٹیاں لدی ہوئی تھیں۔ ان دنوں لاہور میں ٹماٹر 70 روپے کلو کے بھاؤ بک رہے تھے، جب کہ بھارت میں یہ جنس 18 روپے کلو کے حساب سے فروخت ہو رہی تھی۔ اچانک ہماری گاڑی نے ایک موڑ کاٹا اور نسبتاً گنجان آبادی میں داخل ہو گئی۔

یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا: ضمنی بلدیاتی انتخابات میں آزاد امیدواروں نے میدان مار لیا

امرستری مناظر

"لو جی اسی لوگ امرتسر وچ پہنچ رہے ہاں"... "اے انڈیا گیٹ دا علاقہ اے" ڈرائیور نے شاید گائیڈ کی ڈیوٹی بھی سنبھال لی تھی۔ سامنے ایک چوک دکھائی دیا جس کے درمیان ایک بڑا مجسمہ نصب تھا۔ وردی میں ملبوس ایک سردار صاحب تلوار سمیت گھوڑے پر سوار ایک سپاہیانہ شان سے ایک طرف نظریں جمائے ہوئے تھے۔ ہمارے پوچھنے پر ڈرائیور نے بتایا یہ جنگجو شام سنگھ اٹاری کا مجسمہ ہے جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج کا ایک شیردل جرنیل تھا۔ اب ہماری آنکھوں کے سامنے امرتسر کا تاریخی شہر اپنا دامن پھیلائے ہوئے تھا اور ہمارے معدے بھوک کی شدت سے سکڑ رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی کرکٹ ٹیم کو پاکستان آنا چاہیے، نواز شریف کی میڈیا سے گفتگو

لنچ کا انتخاب

ہم لوگ امرتسر شہر میں داخل ہوئے تو گھڑیاں بھارتی وقت کے مطابق 1 بجا رہی تھیں۔ سوا تین بجے ہمیں ریلوے سٹیشن سے دہلی جانے کے لئے شانِ پنجاب نامی ریل گاڑی پکڑنا تھی۔ جس سے پہلے ہمیں سردار بھوپندر سنگھ کی ہدایت کے مطابق ریلوے سٹیشن کے قریب واقع ہوٹل "بھائیاں دا ڈھابہ" میں لنچ بھی کرنا ہے اور دہلی سے سماجی رہنما ستیا پال جی کے فون کے مطابق مین گیٹ سے امرتسر ریلوے سٹیشن داخل ہوتے ہی روندر شرما جی کی کتابوں کی دکان سے ایڈوانس بکنگ اور ٹکٹ ان کے پاس امانتاً موجود ہیں ان سے حاصل کرنے ہیں۔ بھوک کی شدت اور قوت کی کمی کے پیش نظر ہم نے سامنے نظر آئے "کندن ڈھابا" کے بارے میں پوچھا کہ اس ڈھابے کا کھانا کیا معیاری ہوتا ہے؟ ڈرائیور نے جواباً بتایا کہ "کندن ڈھابے دا کھانا تے بھایاں دے ڈھابے دا اک برابر اے"۔ چنانچہ ہم نے فوراً "کندن ڈھابے" کے سامنے اپنی گاڑیوں کو رکوایا۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا کرپٹو کونسل پر تحفظات کا اظہار، سوالات اٹھا دیئے

کھانے کا تجربہ

اندر داخل ہوتے ہی وفد کے ارکان مینو کی کاپیوں پر جھپٹے جن میں گوشت کی کسی ڈش کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ 3 سالن دستیاب تھے وہ سب کے سب دالوں اور سبزیات پر مشتمل تھے۔ چنانچہ ہم نے پاکستانی کھانوں کی لذت کو یاد کرتے ہوئے دال بھات سے معدے کی آگ ٹھنڈی کی۔

ایک کٹوری سبزی، ایک کٹوری دال، چند ٹکڑے پنیر، اچار اور 2 چپاتیوں پر مشتمل ایک تھالی کی قیمت 2009 ء میں 88 روپے تھی جو پاکستانی کرنسی کے حساب سے ڈیڑھ سو روپے بنتے ہیں۔ اگر ہم لاہور میں ہوتے تو ڈیڑھ سو روپے میں اس سے کہیں بہتر اور اچھا کھانا کھا سکتے تھے۔ کندن ڈھابے کے کھانے سے فارغ ہوئے تو 2 بج رہے تھے۔ سو فیصلہ ہوا کہ یہاں سے سیدھے ریلوے سٹیشن کا رخ کیا جائے تاکہ بروقت ٹکٹ وغیرہ اپنے ہاتھ میں لے لئے جائیں.

نوٹ

(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...