مسافت برسوں پر پھیل گئی، گاؤں جاتا ہوں تو کسی نہ کسی اسٹیشن کے کھنڈر کے سامنے ٹھہر کراس ڈھائی جانیوالی عمارت میں شاندار ماضی تلاش کرتا پھرتا ہوں
سفر کا آغاز
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 297
ہم لوگ پہلے بہاول نگر اور پھر وہاں سے ایک اور گاڑی بدل کر سمہ سٹہ تک گئے تھے۔ جہاں اتر کر ایک بار پھر ہمیں دوسرے پلیٹ فارم سے مرکزی لائن پر لاہور کی طرف سے کراچی کی جانب جانے والی ایکسپریس گاڑی پر سوار ہو کر کراچی پہنچنا تھا۔ ہم 8 گھنٹے کا راستہ طے کر آئے تھے اور ابھی آگے پورے ایک دن کا سفر طے کرنا تھا۔ اور پھر میری یہ مسافت برسوں پر پھیل گئی اور نا جانے کتنے برس تک میں اس سفر کو ایک سبق کی طرح دہراتا رہا۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب یونیورسٹی نے فیسوں میں 59 فیصد تک اضافہ کر دیا
ریلوے لائن کی کہانی
سمہ سٹہ سے فورٹ عباس جانے والی یہ ریلوے لائن میری اپنی تھی اور دل کے بڑے قریب تھی، یوں اس پر اسی حوالے سے کچھ لکھنا تو بنتا ہے۔ میں اب جب بھی کبھی اپنے گاؤں جاتا ہوں تو کسی نہ کسی اسٹیشن کے کھنڈر کے سامنے ٹھہر کر اس ڈھے، بلکہ ڈھائی جانے والی عمارت میں اپنا شاندار ماضی تلاش کرتا پھرتا ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: شام کی حکومت تسلیم کرنے کے فیصلے پر اسرائیل سے مشورہ نہیں کیا، ٹرمپ کا انکشاف
یادیں اور ماضی کی جھلکیاں
تب ان اسٹیشنوں پر مسافروں کا شور و غل اور خوانچے والوں کی صدائیں گونجا کرتی تھیں۔ حیرت انگیز طور پر ان شکستہ عمارتوں کے ٹکٹ گھر کی کھڑکی کے ساتھ لگے ہوئے بورڈ پر ابھی تک اس وقت کی گاڑیوں کے نظام الاوقات اور مختلف اسٹیشنوں کا کرایہ نامہ لکھا ہوا ہے۔ اسٹیشن ماسٹر کا اْجاڑ اور بغیر چھت والا کمرہ اس سفید لباس والے اسٹیشن ماسٹر کی صورت دیکھنے کو ترس گیا ہے، جو کسی گاڑی کے آنے پر تیزی سے سبز و سرخ کی جھنڈیاں لے کر باہر نکل آتا تھا۔ اب تو وہ خود بھی جب یہاں سے گزرتا ہوا اس تباہی کو دیکھتا ہو گا تو اس کی آنکھوں کے گوشے بھی ضرور بھیگ جاتے ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کے پولی گراف اور فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ کے لیے پولیس کی درخواست مسترد
فورٹ عباس کا حال
ہمارے قریبی قصبے فورٹ عباس، جس کا ذکر ایک تواتر سے ہوتا رہا ہے، کا ریلوے اسٹیشن بھی اس تباہی سے نہ بچ سکا۔ اس کی عمارت برباد کر دی گئی، ظالم اس کی اینٹیں تک اکھاڑ کر لے گئے۔ پلیٹ فارم پر اب دھول مٹی اْڑتی ہے۔ جہاں ایک گھنے درخت تلے ٹھنڈے پانی کے گھڑے رکھے ہوئے ہوتے تھے، اب وہاں گدھے بندھے ہوئے دیکھے۔ صرف پلیٹ فارم کے آغاز پر لگا ہوا اسٹیشن کے نام والا بڑا سا بورڈ اور اسٹیشن کی عمارت کے سامنے لکھا ہوا فورٹ عباس اس بات کو یاد کرواتا ہے کہ یہاں بھی کبھی جیتے جاتے لوگ دوڑتے پھرتے تھے جن کی وجہ سے بڑی چہل پہل رہتی تھی، مگر اب ایسا نہیں ہوتا کیونکہ اب یہ اسٹیشن ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا ہے اور محکمہ ریلوے نے اسے ناکارہ سمجھ کر اس کا نام بھی اپنی کتابوں سے ہٹا دیا ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں: اداکار ارباز خان نے خوشبو کے ساتھ اپنی طلاق کی تصدیق کر دی
یادوں کا نقصان
پھر مقامی لوگوں نے بھی حسب روایت اس کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا اور ڈھانچے اور فولادی پٹریوں کے سوا اس کا کچھ بھی باقی نہ رہنے دیا، سب کچھ نوچ کر لے گئے، لیکن وہ بے حس لوگ اس اسٹیشن کی خوبصورت یادیں ہمارے ذہنوں سے بھلا کیسے کھرچ سکتے ہیں۔
ماضی کے آثار
اس علاقے میں گاڑی چلنا کیا بند ہوئی لوگ اس طرف کا راستہ ہی بھول گئے۔ محکمہ ریلوے کی زمین ہے اس لیے بچی ہوئی ہے ورنہ وہاں کب کا قبضہ ہو کر سیکڑوں مکان اور دکانیں بن چکی ہوتیں۔ میں نے آج اسی ریل کی پٹری، اسٹیشن اور اس پر چلنے والی گاڑیوں کا نوحہ لکھا ہے۔ کبھی کبھی دل سے ہوک اٹھتی ہے کہ کاش یہ سب کچھ نہ ہوا ہوتا۔ مگر بدقسمتی سے یہ سب کچھ ہو چکا ہے اور ہم اس کا رونا بھی رو چکے ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








