سلامتی سے استحکام تک: فوجی قیادت کا متوازن سفر
			عسکری قیادت کا کردار
پاکستان کے موجودہ قومی و ادارہ جاتی منظرنامے میں عسکری قیادت کا کردار ہمیشہ مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ ملکی تاریخ کے مختلف ادوار میں فوج نے نہ صرف دفاعی ذمہ داریاں نبھائی ہیں بلکہ داخلی استحکام، سیکیورٹی پالیسیوں اور بین الاقوامی تعلقات میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان کو جس طرح کے چیلنجز کا سامنا رہا ہے، ان میں قیادت کی سمت اور ادارہ جاتی نظم و ضبط کو خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا واقعی مانع حمل دوا سے لاکھوں خواتین کے دماغ میں ٹیومر پیدا ہوگیا؟ تشویش کی لہر دوڑ گئی
فوجی قیادت کی مہارت
فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی قیادت میں فوج نے پیشہ ورانہ استحکام اور تنظیمی نظم کو برقرار رکھنے پر خاص توجہ دی۔ ان کا بنیادی وژن ایک ایسے ادارے کی تعمیر پر مبنی رہا ہے جو آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ معاشی اور سیاسی دباؤ بھی ہمہ وقت موجود رہتا ہے، وہاں ادارہ جاتی غیر جانب داری اور پیشہ ورانہ طرزِ عمل کو برقرار رکھنا ایک چیلنج بھی ہے اور کامیابی بھی۔ ان کی پالیسیوں کا ایک نمایاں پہلو یہ رہا کہ فوج کو داخلی اور بیرونی سیکیورٹی چیلنجز کے تناظر میں جدید تقاضوں کے مطابق مستحکم کیا جائے۔ ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس اور انسدادِ دہشت گردی کے شعبوں میں بہتری لانا، فوجی پیشہ ورانہ تربیت کو جدید خطوط پر استوار کرنا اور دفاعی حکمتِ عملی کو علاقائی صورتحال سے ہم آہنگ کرنا ان کے دور کے نمایاں پہلو سمجھے جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور میں سب انسپکٹر کے گھر سے کمسن گھریلو ملازمہ کی لاش برآمد
داخلی سیکیورٹی کے چیلنجز
ملک کے اندرونی امن و امان کے حوالے سے دہشت گردی کے خطرات ایک مستقل چیلنج رہے ہیں۔ اس دوران ریاستی اداروں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا اور سول انتظامیہ کے ساتھ رابطہ بہتر بنانا، عسکری قیادت کے لیے ایک اہم ترجیح رہی۔ اس کے نتیجے میں مختلف آپریشنز اور سیکیورٹی اقدامات کو زیادہ مؤثر انداز میں آگے بڑھایا گیا۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ فوجی ادارے نے اپنی توجہ زیادہ تر پیشہ ورانہ امور تک محدود رکھی اور کسی سیاسی عمل میں براہ راست مداخلت کے تاثر کو کم کرنے کی کوشش کی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی وزیر کی ہدایت پر بھارت سے واپس آنے والے 2 بہن بھائی اب کہاں ہیں؟ تفصیلات منظر عام پر
خارجہ پالیسی میں توازن
خارجہ محاذ پر پاکستان کے لیے ایک متوازن پالیسی کی ضرورت ہمیشہ سے رہی ہے۔ عالمی سطح پر دفاعی تعلقات، علاقائی استحکام اور بین الاقوامی اعتماد کے قیام میں فوج کا کردار براہ راست اثر ڈالتا ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان نے سفارتی تعلقات میں محتاط اور حقیقت پسندانہ رویہ اپنایا، جس میں فوجی قیادت نے پالیسی کے تسلسل کو برقرار رکھا۔ اس عمل کا مقصد پاکستان کو ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر پیش کرنا تھا، جو علاقائی امن اور تعاون کے لیے سنجیدہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (پیر) کا دن کیسا رہے گا ؟
ادارہ جاتی اصلاحات
ادارہ جاتی اصلاحات کے ضمن میں احتساب، شفافیت اور میرٹ کو تقویت دینے کی پالیسیوں پر عمل کیا گیا۔ عسکری سطح پر افسران کی تربیت، پیشہ ورانہ کارکردگی کے معیار اور داخلی نظم میں بہتری کے اقدامات سامنے آئے۔ یہ تمام اصلاحات ادارے کے اندر ایک مثبت اور منظم طرزِ فکر کو فروغ دینے کا باعث بنیں۔ پاکستانی معیشت، سیاست اور سلامتی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی حقیقتیں ہیں۔ ایسے میں فوج کا یہ مؤقف کہ وہ صرف اپنے آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرے، ریاستی توازن کے لیے نہایت اہم سمجھا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم شہباز شریف سے پاکستانی کنٹینٹ کریئیٹر طلحہ احمد کی ملاقات
بین الاقوامی چیلنجز
یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان کی افواج کو نہ صرف داخلی چیلنجز بلکہ بیرونی دباؤ کا بھی سامنا رہا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات، خطے میں طاقت کا توازن اور جیو اسٹریٹیجک مفادات کے تحفظ جیسے معاملات میں محتاط حکمتِ عملی اپنانا ناگزیر تھا۔ عسکری قیادت نے سفارتی سطح پر بھی ایسے اقدامات کی حمایت کی جن سے پاکستان کے عالمی تشخص کو مستحکم کرنے میں مدد ملی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی اور مودی کے حصے میں سفارتی تنہائی آئی، وزیراعظم شہباز شریف
عسکری قیادت کا امتحان
فوجی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو قیادت کا سب سے بڑا امتحان یہ ہوتا ہے کہ وہ ادارے کے اندر اتحاد اور عوامی اعتماد دونوں کو برقرار رکھ سکے۔ حالیہ برسوں میں مختلف چیلنجز کے باوجود فوج نے اپنی تنظیمی ساخت اور عوامی امیج کو سنبھالے رکھا۔ یہ ایک مثبت پیشرفت ہے کہ عسکری ادارے نے خود کو غیر سیاسی کردار کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی، جس سے ریاستی اداروں کے درمیان توازن کے امکانات بڑھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایونٹ کے دوران اداکارہ کی اچانک آواز چلی گئی، 2 سال تک بول نہیں پائی، پھر آواز کیسے واپس آئی؟
سلامتی کی پالیسیوں کا محور
ادارہ جاتی تسلسل کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کی سلامتی پالیسیوں کا ایک واضح محور داخلی امن کا قیام اور سرحدوں کا مضبوط دفاع رہا ہے۔ ان تمام اقدامات نے مجموعی طور پر ریاستی ڈھانچے میں استحکام پیدا کرنے میں کردار ادا کیا۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز حکومت نے 16 مہینوں میں کتنا قرضہ لیا؟ تفصیلات سامنے آگئیں
مستقبل کے چیلنجز
اگر مستقبل کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے لیے سب سے اہم چیلنج اداروں کے درمیان اعتماد، پالیسیوں کا تسلسل اور قومی اتفاقِ رائے کی بحالی ہے۔ عسکری قیادت کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے کردار کو آئینی دائرے میں رہتے ہوئے مؤثر انداز میں ادا کرے اور عوامی سطح پر اعتماد کے رشتے کو مزید مضبوط بنائے۔
نتیجہ
پاکستان کی موجودہ صورتِ حال میں ایک متوازن، پیشہ ورانہ اور اصولی قیادت ناگزیر ہے۔ عسکری ادارے کا غیر جانبدار، مؤثر اور شفاف کردار ملک کے استحکام میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ یہی وہ سمت ہے جس پر چل کر پاکستان کے ادارے ایک متفقہ اور مضبوط قومی بیانیہ تشکیل دے سکتے ہیں، ایسا بیانیہ جو داخلی سلامتی، معاشی بحالی اور عوامی اعتماد کے درمیان ایک پائیدار ربط پیدا کرے۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
				







